انتخابات اور سياسى سرگرميوں ميں حصہ لينا

  • | پير, 24 دسمبر, 2018
انتخابات اور سياسى سرگرميوں ميں حصہ لينا

 

           دہشت گرد تنظيم داعش كا فتوى  ہے كہ انتخابات اور سياسى نظام ميں حصہ لينا حرام ہے، يہاں تك كہ انہيں  اسلام كے نواقض ميں شمار كيا جاتا ہے۔

جواب:

              اسلامى قانون نے انتخابات اور اس كى سرگرميوں ميں حصہ  لينے كى ترغيب دى ہے، بہت سى احاديث  نے سياست اور اقتدار كے معاملات ميں اسلام كےاہتمام پر تاكيد كى ہے، اور ان ہى احاديث ميں انصاف، اقتدار، اور مشاورات سے وابستہ كئى الفاظ  آئے ہيں،جس سے ان كا يہ دعوى كہ دين كا سياست سے كوئى تعلق نہيں غلط ثابت ہوتا ہے، پس انتخابات ميں كسى بھى طريقہ سے حصہ لينے ميں اسلامى تعليمات  كى كسى بھى قسم كى كوئى خلاف ورزى نہيں ہے. كيونكہ اسلام  ايك  مكمل  نظام ِ حيات  ہے، اور كسى بھى ملك كا سياسى  نظام  اختيار كرنا معاشرے كے ہر فرد كا اولين حق ہے، كيونكہ يہ انتخابات اس كى زندگى پر براه راست اثر انداز ہوگا۔

              اُن كا دعوى ہے كہ پارليمنٹرى اليكشن كا نظام يورپين اور غير مسلمان معاشروں سے آيا ہے  اور يہ ايك اسلامى نظام نہيں ہے.فى الحقيقت دوسرے معاشروں سے آيا  ہوا ہر نظام "بدعت" نہيں ہے، كيونكہ ان  معاشروںميں  بہت سى ايسى چيزيں ہيں جس سے ہم زندگى  كے مختلف شعبوں  ميں فائده اٹھاتے ہيں، رسول اللہ ؐ نے مدينہ كے اردگرد جب خندق كھودنے كا حكم ديا  تھا تو وه در اصل اہل فارس سے متاثر تھے. ان كى نظر ميں  حاليہ دنوں ميں ہونے والے اليكشنز خلفائے راشدين كے انتخابات (شورى)  كے طريقہ سے مختلف ہيں  اور يہ طريقہ اسلامى شريعت ميں وارد نہيں ہوا.ہم ان كو كہتے ہيں كہ شريعت ميں كسى چيز كا ذكر   وارد  نہ ہونے مطلب  اس كى" ممانعت" نہيں، بلكہ اس كے"جائز ہو نے" كا ثبوت  ہے ، حضور پاك كا ارشاد ہے "حلال وه ہے جو اللہ نے حلال كيا ہے، اور حرام وہ ہے جس كو اللہ كے حرام كيا ہے اور جس كے بارے ميں كچھ نہيں كيا گيا تو وه جائز ہے"۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.