مسلمانوں كے باہمى حقوق

  • | جمعرات, 14 مارچ, 2019
مسلمانوں كے باہمى حقوق

     دائره اسلام ميں داخل ہونے والا ہر شخص اخوت اسلامى كے رشتے ميں منسلك ہو جاتا ہے اب ضرورت اس بات كى ہوتى ہے كہ اس رشتے كى بقا اور اس كے احكام كى فكر كى جائے۔ جب ہم اسلام  كے ديئے ہوئے ان حقوق كو ديكهتے ہيں جن كا باربار قرآن كريم ميں ذكر آيا ہے اور آنحضرت ؐ نے بهى مختلف مواقع پر نہايت صراحت سے انہيں بيان فرمايا ہے تو ہميں ان كى مختلف جہتيں اور نوعتيں دكهائى ديتى ہيں۔

ان ميں سے پہلا حق وه ہے جو تين حقوق كا مجموعہ ہے جان، مال اور عزتِ نفس۔ حجہ الوداع ميں آپؐ نے واضح طور پر ارشاد فرمايا: «مسلمانو! جس طرح يہ حرم اور يہ دن اور يہ مہينہ جس ميں حج ہوتا ہے تمہارے لئے حد درجہ محترم ہيں اور تم ان كى حرمت كو پامال نہيں كر سكتے بالكل اسى طرح مسلمانوں كا خون، مسلمانوں كى عزت اور مسلمانوں كا مال بهى تمہارے نزديك محترم ہے۔ »كيونكہ مسلمان كا قتل كرنا تو ايك بہت بڑى جسارت ہے۔ مسلمانوں ميں باہمى لڑائى، قتل اور خون ريزى تك نوبت اچانك نہيں پہنچتى۔ يقينًا اس سے پہلے كئى چهوٹى چهوٹى باتيں پيدا ہوتى ہيں جو بڑهتے بڑهتے حادثے تك پہنچ جاتى ہيں۔ اس لئے پروردگار عالم نے قرآن كريم ميں ان چهوٹے چهوٹے اسباب كے خاتمے كے لئے بهى واضح احكام ديئے اور آنحضرتؐ نے مختلف مواقع پر ان احكام كى تفہيم، تسہيل اور تاكيد فرمائى ہے۔

مذاق اڑانا ، كسى ايك فرد يا ايك گروه كى طرف سے دوسرے فرد يا گروه كا از راه تحقير مذاق اڑانا ہے كيونكہ يہى مذاق بڑهتے بڑهتے گالى تك پہنچتا ہے اور گالى كے نتيجے ميں گولى چلتى ہے، آپس ميں دل لگى كرنا اور بے تكلفى اختيار كرنے سے اسلام  ہميں نہيں روكتا ۔ البتہ وه اس بات كى ہرگز اجازت نہيں ديتا كہ تم اس بے تكلفى ميں دوسرے كا مذاق اڑانے لگو ارشاد بارى ہے: "لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ" (کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں) (سورۂ حجرات: 11) رسول اللهؐ نے فرمايا: «ہر مسلمان دوسرے مسلمان كا بهائى ہے۔ لہذا نہ خود اس پر ظلم وزيادتى كرے اور نہ دوسرے كا مظلوم بننے كيلئے اس كوب ے يار ومددگار چهوڑے۔ نہ اس كى تحقير كرے۔»

طعن كرنا  كا مطلب دوسروں كى عيب چينى كرنا اور كھلم كهلا، زير لب يا اشاروں سے كسى كو نشانہ ملامت بنانا ہے۔ يہ سب افعال بهى چونكہ آپس كے تعلقا ت كو بگاڑتے اور معاشرے ميں فساد برپا كرتے ہيں اس لئے ان كو حرام قرار ديا گيا ہے۔ الله تعالى فرماتا ہے: "وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ" (اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ) (سورۂ حجرات: 11)

برے القاب سے  پكارنے  يعنى  كہ ايسا نام نہ پكارا جائے يا ايسا لقب نہ ديا جائے جو اس كو نا گوار گزرے يا جس سے اس كى تحقير ہوتى ہو۔ مثلًا كسى كو فاسق يا منافق كہنا جس ميں اس كى مذمت اور تذليل كا پہلو نكلتا ہو۔ الله تعالى فرماتا ہے: "وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ" (اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔) (سورۂ حجرات: 11)

بدگمانى كرنا  انسان اپنے دل كو دوسرے سے متعلق بدگمانيوں كا مركز گاه نہ بنالے اور  جس كى نسبت جو براگمان بهى دل ميں پيدا ہو جائے اس كو بهولنے كى كوشش كرے ۔ يہى گمان آدمى كو آدمى سے جوڑتا يا توڑتا ہے۔ اہل ايمان كو اسلام نے اس بات ميں يہ رہنمائى دى ہے كہ ايك مسلمان دوسرے مسلمان كے بارے ميں ہميشہ نيك گمان ركهے۔

الله تعالى فرماتا ہے: "وَلَا تَجَسَّسُوا" (اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو) (سورۂ حجرات: 12) يعنى كہ  اگر دوسروں كى پرائيويٹ زندگى سے متعلق كوئى ايسى بات ہاتھ آجائے، جس سے اس كى خاميوں سے آگاہى اور اس كے اندورون خانہ اسرار تك رسائى ہو۔ يہ چيز كبهى تو حسد كے جذبہ سے پيدا ہوتى ہے اور  كبهى ضد كى شدت اس كا باعث ہوتى ہےكہ كوئى ايسى بات ہاتھ لگے جس كى ضرورت كے وقت  تشہير كر كے مخالف كو رسوا كيا جا سكے۔

الله رب العزت فرماتا ہے: "وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا" (اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔) (سورۂ حجرات: 12) غيبت كے معنى كسى كى اس كى پيٹھ پيچهے برائى بيان كرنے كے ہيں۔ پيٹھ پيچهے كے مفہوم ميں يہ بات بهى داخل ہے كہ غيبت كرنے والا چاہتا ہے كہ اس كے اس فعل كى خبر اس كو نہ ہو، جس كى وه برائى كر رہا ہے۔غيبت كے سلسلے ميں ايك بڑى غلط فہمى  يہ ہے كہ بالعموم يہ سمجها جاتا ہے كہ كسى كى برائى اس كى پيٹھ پيچهے كرنا غيبت اور چغلى ہے  ليكن چغلى كا مفہوم اس سے زياده وسيع ہے :  «ايك شخص نے رسول اللهؐ سے پوچها غيبت كيا ہے؟ آپؐ نے فرمايا كہ تو كسى كا ذكر اس طرح كرے كہ وه سنے تو اسے ناگوار ہو۔ اس نے عرض كيا: يا رسول اللهؐ! اگرچہ ميرى بات حق ہو۔ آپؐ نے فرمايا اگر تيرى بات باطل اور غلط ہو تو پهر تو وه بہتان ہے۔»

خلاصہ يہ ہے كہ مسلمانوں پر   چند ايسے حقوق عائد كيے گئے ہيں جن سے اخوت اسلامى كے رشتے كو نہ صرف تقويت ملتى ہے بلكہ اس ميں چند در چند اضافہ ہوتا  رہتا ہے۔ ان تمام حقوق كو جو مسلمانوں كے باہمى خير خواہى اور ان كے باہمى رشتہ اخوت كے لئے ضرورى ہيں۔ حضورؐ نے فرمايا: «جس كو مسلمانوں كے مسائل ومعاملات كى فكر نہ ہو وه ان سے نہيں ہے اور جس كا يہ حال ہو كہ وه ہر دن اور ہر صبح وشام الله اور اس كے رسولؐ اور اس كى كتاب قرآن پاك كا اور اس كے امام (يعنى خليفہ وقت) كا اور عام مسلمانوں كا مخلص وخير خواه اور وفادار نہ ہو (يعنى جو كسى وقت بهى اس اخلاص اور وفادارى سے خالى ہو) وه مسلمانوں ميں سے نہيں ہے۔»

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.