مکالمہ بین المذاہب ؛ وقت کی اہم ترین ضرورت

  • | اتوار, 5 مئی, 2019
مکالمہ بین المذاہب ؛ وقت کی اہم ترین ضرورت

     آج كے دور ميں اقوام ِ عالم متعدد فکری، سیاسی، اقتصادی، سماجی، قانونی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایسے میں ایک طرف لوگوں، گروہوں اور ریاستوں کی انفرادی، گروہی اور ریاستی مفادات نے مختلف اقوام کے اندر ایک تناؤکی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دوسری طرف لوگوں کے مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور سماجی و سیاسی تعصبات نے پرامن بقائے باہمی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مفادات اور تعصبات کی چپقلش نے کبھی مذہبی رنگ تو کبھی سیاسی رنگ اور بسا اوقات نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے مختلف اقوام اور رنگ و نسل کے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔دنیا کو درپیش مشکلات کے حل، اور اس میں رہنے والوں کی زندگی میں امن، خوشحالی، توازن اور ترقی کے لیے جن چیزوں پر پھر سے اصرار کیا جانے لگا ہے، ان میں سے ایک دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ثقافت کو زنده كرنا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جن میں انسانیت کی بہتری اور فلاح کا سامان موجود ہے۔ سب مذاہب نے انسانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے، ان کی خدمت کرنے، ضرر رسانی سے بچنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔ مذہب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسان کو ان فسادات و مسائل سے نجات دلا سکے۔

دنیا کے تمام مذاہب بنیادی طور پر انسانیت کو امن کا پیغام دیتے ہیں، مگر اس کے باوجود بدقسمتی سے مذاہب کے درمیان تناؤ کا ماحول پایا جاتا ہے۔ مختلف مذاہب کے مابین خوشگوار ماحول کو فروغ دینے اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لئے ان کے مابین مکالمہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام غیرمسلموں سے بھلائی کا حکم دیتا ہے، جس مقصد کے لئے بین المذاہب اچھے تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔ جب مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ان کی باہمی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ان کے دل میں ایک دوسرے کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے۔

يہ ایک حقیقت ہے کہ تمام اقوام برابر نہیں اور نہ ہی تمام مذاہب کو ایک پیمانہ پر پرکھا جاسکتا ہے بلکہ ہر قوم کو دوسری قوم پر کچھ نہ کچھ ترجیح حاصل ہوتی ہے لیکن خالق کائنات نے کہ جس نے انسان کو قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے خود اس کی وجہ بیان فرمائی ہے : (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا )، ترجمة(الحجرات: 13)، (لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو)۔

معاشرے کے امن کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسرے کے ساتھ بلاتفریق بہتر رویہ اختیار کرے، رنگ و نسل اور مذہب کے امتیازات سے قطع نظر سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے اور نہ کسی کو حقیر اور کمزور سمجھے، انسان کے اس برتاؤ کا نام رواداری ہے، رواداری کا تقاضا ہے کہ ہر انسان قوم و قبلہ  اور رنگ و نسل کے امتیاز سے بلند ہوکر معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھے۔

آج كے دور ميں انتہا پسندى روز بروز بڑھ رہا ہے،  جو كہ عالمی امن کے لئے نقصان دہ ہے ، معاشروں کے درمیان نفرت اور تقسیم ختم کرنے، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے، مغربی دنیا اور اسلام کے مابین یگانگت، مفاہمت، وحدت اور امن و سلا متی کے قیام کے لئے انتہا پسندى روكنا  از حد ضروری ہے۔ بين المذاہب مكالمہ موجودہ پُرتشدد انتہاپسندی سے مقابلے کے لیے ایک پیش رفت ہوئی ہے۔

اسلام   كو  دینِ امن ، دینِ محبت ، بقائے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت اور حرمتِ جانِ انسانی کو  سب ہى بنیادی اسلامی شعائر سمجھا جاتاہے ۔ اقامت  اسلام سے مراد امن  عالم کا قیام ہے۔ اسلام میں اس طرح کے انتہا پسندانہ خیالات کی گنجائش نہیں ۔ بعض انتہا پسند طبقا ت نے  دين كى اقامت   سے مراد دنیا سے تمام اديان  کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری انسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث بن گیا۔ فی الواقع یہ تصوردینِ فطرت کے بھی خلاف تھا۔ یہ لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔

پرامن اور متوازن سوسائٹی کی تشکیل  بين المذاہب مكالمہ  کا تقاضا ہے۔ اسلام بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ کی تعلیمات سے عبارت ہے۔اسلامی تعلیمات امنِ  عالم کیلئے ناگزیر ہیں۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔ دنيا  کو میانہ روی، صبر، برداشت اور باہمی رواداری پر مبنی معاشرہ بنانے کیلئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔

ایک مہذب اور پرامن معاشرے کی تشکیل میں نبی کریم ؐ کی حیات مبارکہ میں کیے گئے عملی اقدامات روشن مثالیں ہیں۔ ہمارا  فرض  بنتا ہے  کہ ہم اپنے پیارے حضورؐ  کی سنت پراور آپؐ کے اسوہِ حسنہ اور ہدایات پر عمل کريں۔اور آپ  ؐ کے خصائص و فضائل اور اخلاق حسنہ کی دوسروں کو تعلیم دیتے رہیں۔

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
3.6

Please login or register to post comments.