خوش اخلاقى كى قدر وقيمت

  • | اتوار, 5 مئی, 2019
خوش اخلاقى كى قدر وقيمت

      الله تعالى نے كائنات كى سارى مخلوق ميں سے انسان كو منفرد خوبيوں اور خصوصيات سے نوازا ہے، اور اس كى زندگى ميں دوسروں سے لين دين اور معاملات كا بنيادى عنصر ركها ہے، باوجود اس كے كہ الله تعالى نے لوگوں كو (ايك دوسرے سے) مختلف بناكر انہيں قوموں ميں تقسيم كيا جن ميں ہر ايك كى اپنى خصوصيات ہيں مگر اس كے ساتھ ساتھ  اس نے انسان كو اضافى صلاحيتيں عطا كيں جو انسانى معاشرے كى تعمير ميں دوسروں سے باہمى مفاہمت ميں اس كى ممد ومعاون ہيں، تاكہ اس (معاشرے) كے باشندے مثبت بقائے باہمى، اور امن واستحكام سے زندگى بسر كريں- ارشاد بارى ہے: "يا أيها الناس إنا خلقناكم من ذكر وأنثى وجعلناكم شعوبًا وقبائل لتعارفوا" (اے لوگو! ہم نے تم سب كو ايك ہى مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور اس لئے كہ تم آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديئے ہيں" (سورۂ حجرات: 13)-

لكن يہ تعارف اس وقت تك ممكن نہيں جب تك كہ متعلقہ اطراف اس كے لئے تيار نہ ہوں، اس ميں كوئى شك نہيں كہ چہرے كے تاثيرات دوسرے فرد كى قبوليت يا عدم قبوليت كو ظاہر كرديتے ہيں، خوش اخلاقى يا چہرے  كے تاثيرات دوسرے فرد كى قبوليت يا عدم قبوليت كو ظاہر كرديتے ہيں، خوش اخلاقى يا چہرے كى مسكراہٹ- اچهے تعارف اور قبوليت كا ذريعہ ہوتى ہے- اور اگر اس كى بجائے چہرے پر ترش روئى، بد مزاجى اور شكن ہوں، تو قبوليت وتعارف ميں ركاوٹ شمار ہوتى ہے-

اچها تعارف بذات خود باہمى مفاہمت كا سبب بنتا ہے، جيسا كہ حديث مبارك ہے كہ عالم ارواح ميں "روحيں گروہوں كى شكل ميں تهيں جس كا وہاں تعارف ہوا ان ميں (يہاں بهى) الفت ہے اور جو وہاں اجنبى تهيں ان ميں (يہاں بهى) اختلاف ہے يہى  وجہ ہے كہ نبى كريم ﷑ ہميں دوسروں كے ساتھ خوش اخلاقى سے پيش آنے كى ترغيب ديتے ہيں، كيونكہ يہ دلوں ميں الفت ومحبت كا تعلق پيدا كرنے كے لئے بہت اہم ہے،  آپ ﷑ فرماتے ہيں: تمہارا اپنے مسلمان بهائى سے مسكرا كر ملنا (بهى) صدقہ ہے"- اسى طرح ايك اور حديث مبارك ہے: "تم ہرگز كسى نيكى كو حقير نہ سمجهوتہ  خواه وه اپنے بهائى سے خوش اخلاقى ومسكراہٹ سے ملاقات ہى ہو".

دوسروں كے ساتھ خوش اخلاقى سے پيش آنے كا مطلب ان كى قبوليت اور آدميت كا احترام ہے، علاوه ازيں ايسا كرنے والا اس (چهوٹے سے عمل) پر الله تعالى كے نزديك اجر وثواب كا مستحق بهى ہے-

دوسروں كے ساتھ خوش اخلاقى سے پيش آنے ميں كوئى پيسے خرچ نہيں ہوتے، مگر اس كے نتيجے ميں پيدا ہونے والى تاثير بڑى اہميت كى حامل ہے، ہمارا روز مره كا تجربہ ہے كہ جب ہم اپنے دن كا  آغاز كرتے ہوئے دوسروں كےچہرے پر خوشى كے آثار ديكهتے ہيں تو اس سے ہمارے اعمال پر مثبت اثر پڑتا ہے اور  وه ہميں ہمت وچستى سے كام كرنے كے قابل بناتى ہے اور ہم خوشى سے لوگوں كے كام انجام ديتے ہيں، اور اس طرح ہم بهى زندگى اور معاشرے كى ترقى ميں شريك ہوجاتے ہيں-

دوسرى طرف ترش روئى، بد مزاجى اور تصنع كى مثال ہے- جسے بعض لوگ يہ گمان كرتے ہوئے اپناتے ہيں كہ يہ بهى تقوى اور وقار كى قبيل ميں سے ہے، ليكن حقيقت يہ  ہے كہ ترش روئى خود اس شخص كے لئے نقصان ده ہے كيونكہ يہ لوگوں كى اس سے نفرت كا سبب بنتى ہے اور دوسروں كے لئے بهى كہ فقط چہرے پرترش روئى خود اس شخص كے لئے نقصان ده ہے كيونكہ يہ لوگوں كى اس سے نفرت كا سبب بنتى ہے اور دوسروں كے لئے بهى كہ فقط چہرے پر ترش روئى ديكهتے ہى، آزردگى سے ان كے پورے دن كا مزه كر كراہو جاتا ہے جس كى وجہ سے وه كام ترك كرديتے ہيں، اور شايد اس كا اثر منفى طور پر دوسروں لوگوں كے ساتھ برتاؤ ميں ظاہر ہو، جو لوگوں كے تعلقا ت كو خراب كردے، اور پورا معاشره اس منفى اثر كا شكار ہوجائے-

نبى كريم ﷑ترش روئى كے بر عكس ہر كسى كے ساتھ خوش مزاجى اور حسنِ اخلاق سے  پيش آتے تهے، صحابہ كرام سے مروى آثار سے تائيد ہوتى ہے كہ آپ ﷑ اپنے صحابہ كے ساتھ گهل مل كر گفتگو اور مزاح فرماتے تهے، آپ ﷑ نے كبهى كسى كے ساتھ ترش روئى سے ملاقات نہيں كى بلكہ آپ ﷑ ہميشہ خوش اخلاقى اور نرمى اختيار فرماتے، حضرت انس بن مالك رضى الله عنہ سے مروى ہے: انہوں نے نبى كريم ﷑  كى دس سال خدمت كى اور آپ ﷑ نے كبهى كسى چيز پر ناراضگى كا اظہار نہيں فرمايا" اور حضرت عائشہ رضى الله عنہا سے مروى ہے كہ نبى كريم ﷑ اپنے گهر ميں سب لوگوں سے زياده نرم خو، مسكرانے اور ہنسنے والے تهے، آپ ﷑ بڑوں اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے تهے، آپ ﷑ كے ايك صحابى حضرت اقرع بن حابس رضى الله عنہ نے آپ ﷑ كو حضرت امام حسين رضى الله عنه كو بوسہ ديتے ديكها تو اس نے كہا: ميرے دس بيٹے ہيں ميں نے كسى كوبوسہ نہيں ديا، تو رسول الله ﷑ نے ان كى طرف ديكها اور فرمايا: "جو رحم نہيں كرتا اس پر رحم نہيں كيا جاتا".

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.