ماہِ رمضان

  • | پير, 6 مئی, 2019
ماہِ رمضان

     رمضان  المبارك  رحمتوں ، بركتوں اور نيكيوں كا مہينہ ہے۔يہ نفس كى تربيت كا مہينہ  ہے، دل كو پاك كرنے  كا موسم ہے، دل وعقل اور مزاج واندا زكو راضى بہ رضا رہنے كى مشق كا مہينہ ہے۔ اس كا ہر روز روزِسعيد ہے اور ہر شب شبِ مبارك ہے۔
رمضان المبارك كو ديگر  تمام مہينوں پر فضيلت حاصل ہے۔اس ميں   ايك نفل كاثواب فرض كے برابر اور ايك فرض كا ثواب سترّ فرائض كے برابر كرديا جاتا ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتى ہيں :" جب رمضان كا مہينہ آتا  تو رسول اللہ ؐ كمرِہمت كس ليتے اور اپنے بستر پر تشريف نہ لاتے  يہاں تك كہ رمضان گزر جاتا۔ليكن جب رمضان كى آخرى دس راتيں آتيں  تو سيده عائشہؓ فرماتىں:" رسول اللہ ؐ آخرى دس دونوں ميں جو كوشش فرماتے وہ باقى دنوں ميں نہ فرماتے تھے۔"  
     رمضان المبارك كا روزه  اسلام كا بنيادى ركن  ہے، وہ  تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔عربى زبان ميں روزه كو "الصوم" كہتے ہيں، جس  كے لغوى معنى كسى چيز سے روكنے اور باز رہنے كے ہيں، شريعت كى اصطلاح ميں" صبح صادق سے ليكر غروب آفتاب  تك كھانے پينے اور نفسانى خواہشات سے باز رہنے كا نام روزه ہے۔"
روزہ  كے مقصد اور اس كے نتائج  وآثار  ميں تين چيزوں كا ہونا ضرورى ہے: اتقا يعنى الله سے ڈرنا، تكبير وتقديس اور  حمد وشكر ۔اگر روزہ دار نے اپنی زندگی میں روزہ کے نتائج کے طور پر ان تینوں اُمور کو نہ پایا تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روزہ رکھا گیا اور اس فرض کی انجام دہی ہوگئی۔ کیونکہ انسانی اعمال کا وجود فی الحقیقت ان کے نتائج و آثار کا وجود ہے۔ اگر نتائج و آثار ظہور پذیر نہ ہوئے تو پھر یہ نہ کہئے کہ ان اعمال کا وجود تھا۔اگر روزہ دار روزہ رکھتا ہے، کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کرتا ہے، لیکن روزہ کے نتائج یعنی اِتقا، تکبیروتقدیس اور شکر و حمدِ الہى اس کے اندر نمایاں نہیں ہوتے تو اس کو روزہ دار نہیں کہاجاسکتا۔ اسى حقيقت كى طرف  حضور ؐ نے   ايسے اشاره كيا:
"کتنے روزہ دار ہیں جن کو روزہ سے بجز بھوک کچھ حاصل نہیں اور کتنے رات کا قیام کرنے والے ہیں جن کو نماز سے جاگنے کے سوا کچھ فائدہ نہیں"۔كتنے بد قسمت لوگ ہيں جن كے پيٹ نے روزه ركھا ليكن دل نے روزہ نہيں ركھا، ان كى زبان پياسى تھى ليكن دل   پياسا  نہ تھا؟!!۔
ہميں يہ جاننا  چايئے كہ روزہ کی حقيقت  كيا ہے۔ روزہ ایک ملکوتی حالت  (فرشتہ  صفت حالت) کے ظہور کا نام ہے۔ صائم کا جسم انسان ہوتا ہے لیکن ا س کی روح فرشتوں کی زندگی بسر کرتی ہے جو نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں۔ وہ تمام مادیاتِ عالم سے پاک اور ضروریاتِ دنیوی سے منزہ اور مصروف تسبیح و تحمید و تقدیس ہوتے ہیں۔ اس لئے صائم بھی نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے۔ وہ ماديات سے پاک اور ضروریاتِ دنیوی سے منزہ رہنے کی، جہاں تک اس کی خلقت اور فطرت اجازت دیتی ہے، کوشش کرتا ہے۔ پس صائم  كو نہ  کسی کی غیبت  کرنى چاہيے  اور نہ كسى كو برا بهلا ، ، وہ اس حکم ِ الہى کی تعمیل کرتا ہے:
"تم میں سے جب کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ بدگوئی کرے، نہ شوروغل کرے۔ اگر اسے کوئی برُا کہے یا اس سے آمادہ ٴ جنگ ہو تو کہہ دے: میں روزہ سے ہوں"۔ حضور  ؐ نے بھى ارشاد فرمايا: "روزہ کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ لغو اور عمل شر سے پرہیز کا نام ہے"۔
روزه رمضان المبارك كى بہت اہم عبادت ہے ، اس كے فضائل ميں كئى نبى پاك كى كئى احاديث مشہور  ہيں ۔حضور ؐ كا ارشاد ہے:"تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے) میں تیری ضرور مدد کروں گا، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے"۔ ايك اور حديث ميں  حضور ؐ نے فرمايا:" جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ’’ریان‘‘ ہے اس میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے"۔
روزہ ایک قیمتی عبادت اور اپنے اندر بے شمارفوائد رکھنے والا عمل ہے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے یہ نہایت نتیجہ خیز عبادت ہے۔ روز ہ بندے کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرتا ہے،  اس كو تقویٰ اور پرہیزگاری سکھاتا ہے، ہمدردی اورمساوات کا پیغام دیتا ہے۔ اعتدال ، سنجیدگی، شرافت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ روزہ کا سب سے بڑا فائدہ اور حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نفس پر کنٹرول کر کے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے اور شریعت کے مطابق زنده گذارنے کا مزاج بنتا ہے۔
رمضان المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی بڑھ جاتا ہے۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐ سے پوچھا گیا : "کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے"۔
ہميں اس عظيم الشان  اور مباك مہينہ كے قيمتى اوقات كى قدر كرنى چاہئے۔سال بھر كے لے اپنے دامن كو نيكيوں كے خزانے سے بھرنے كى كوشش كرنى چاہئے اور اس كى رحمتوں ، بركتوں اور نيكيوں سے بھر پور مستفيد ہونے چائيے۔
 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.