نيجريا ميں امامِ اكبر شيخ ازہر فضيلت مآب پڑوفيسر ڈاكٹر احمد الطيب كا خطاب

  • | پير, 23 مئی, 2016
نيجريا ميں امامِ اكبر شيخ ازہر فضيلت مآب پڑوفيسر ڈاكٹر احمد الطيب كا خطاب

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله والصلاۃ والسلام على سيدنا رسول الله صلى الله عليہ وسلم وبارك عليہ وعلى آلہ وصحبہ وسلم

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

آغاز میں ، میں نجیریا کے صدر جناب "محمد بو ہاری " اور ان کے نائب ڈاکٹر "یمی او سیناجو "  کا تہہ دل سے شکریہ ادا كرتا ہوں،   جنہوں نے مجهے نیجیریا آنے اور اس کے علما ، مفکرین اور دانشوروں سے ملاقات کرنے کی دعوت دی ، جس کا مقصد مصر اور نیجیریا کی عوام کے درمیان بھائی چارہ  كےرشتوں کو مزید استوار کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں کے مابین اقلیمی اور بین الاقوامی سطح پر تاریخی تعلقات نہایت  مضبوط رہے ہیں ازہر شریف کا  اس دورہ کا اصل مقصد نیجیریا کی عوام کے لئے اس بات پر تاکید کرنا  ہے کہ اسلام:  وہ اسلام جس کو ہم ازہر میں بچپن سے سیکھتے اور سکھاتے آر ہے ہیں، یہ انسانیت اور امن وسلامتی کا دین ہے ۔ اس دین حنیف نے کبھی بھی قتل وغارت ، تشدد اور ظلم کرنے کی دعوت نہیں دی ۔

ہمارے آنے کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے لئے اس بات کی تاکید کرنا ہے کہ ہمارا دین "سلام " (امن وسلامتی ) کا دین ہے ، جو نہ صرف انسانوں کے لئے بلکہ جانوروں ، پودوں ، بے جان  چیزوں غرض کہ پوری کائنات کے لئے امن وسکامتی کا پیغام لایا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوۓہیں۔ جس نے قرآن پاک میں اپنے آپ کو " الرحمن " بڑی رحمت والا ، "الرحیم" نہایت مہربان، "اللطیف "لطف وکرم کرنے والا ، "الرؤوف" بہت مہربان ، " العفو " بہت معافی دینے والا ، " الغفور " بہت بخشنے والا، کے ناموں سے موصوف کیا ۔ وہ اللہ جو توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو بخشتا ہے اور گنہ گاروں کی اخطا کو معاف کرتا  ہے، راہ راست سے بھٹکنے والوں کو درگزر کرتا ہے، اور اگر کسی نے اپنی غلطی مان لی اور اس پر شرمند ہوا تو اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ اللہ تعالی بڑی قدرت والا اور سب پر کامل اقتدار رکھنے والا دنیا کی تمام مخلوقات اس کے زیر تصرف ہے اس لئے وہ ظالم لوگ جنہوں نے ناحق لوگوں کا خون بہایا ، معصوم بچوں کو ماں باپ کی شفقت سے محروم کیا، بیویوں کے سروں کے تاج چھینے اللہ تعالی کی اس " القوی العزیز" (صاحب قوت اور جو سب پر غالب ہے ) کی عدالت سے کبھی بھی فرار نہیں ہو سکتے ۔ ارشاد باری تعالی ہے " ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون انما یؤخرهم ليوم تشخص فيه الأبصار " (إبراهيم :42) .

اور (مومنو)  مت خيال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بے خبر ہے ۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ۔

میرے عزیز بھائیوں !

        ہم مسلمانوں کے ذہن میں یہ کبھی بھی نہیں آیا تھا کہ ایک ایسا دن آئے گا جس میں وہ اپنے دین کا دفاع کرنے کے لئے اور اس کی اصلیت اور حقیقی جوہر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مجبور ہوں گے ۔

اس دین سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں نے اس کو دنیا کے سامنے ملزم کی  صورت میں پیش کیا ۔

انھوں نے اس کی خوبصورت اور عظیم تصویر پر خون کے دھبے چھینٹے ، بین الاقوامی چینلز پر لوگوں کے سر کاٹنے کے منظر بار بار دنیا کے سامنے پیش کئے ، ایک ایسا ہولناک منظر جس کی وحشیت کی مثال انسانی تاریخ میں کبھی بھی اس طریقہ سے نہیں دیکھی گئی ۔ ان تصویروں اور ویڈیوز کو عالمی سطح پر پھیلانے کا  ایک ہی مقصد ہے : اور وہ ہے اسلام کی صورت کو پوری دنیا کے سامنے بگاڑنا اور غیر مسلمانوں کو یہ یقین دلانا کہ یہ دین قتل وغارت ، وحشیت اور خونریزی کا دین ہے ڈھونڈنا تو ہمیں اس کو چاہیے جو کہ ان وحشت ناک جرائم سے استفادہ حاصل کرتا ہو اور اپنے خوفناک اہداف کو پورا کرنے کے لئے ان تنظیموں کو کبھی پیسوں اور کبھی ہتھیار کی امدادات دیتا ہوں اور آخر میں اپنے ان ہولناک جرائم کو چھپانے کے لئے مذہب کی آڑلیتا ہو۔

میں آپ کے لئے پرانی باتیں نہیں دہرانا چاہتا ۔آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام رواداری ، عدل وانصاف اور دین ، عقیدت ، جنس ، رنگ اور زبان میں کسی بھی قسم کے اختلاف کا احترام کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ باتیں اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس بات بار بار تاکید کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ، یہ آفت  اور عظیم ابتلا ہے ۔ اس خبیث شیطانی پودے  نے اسلام سے ڈر اور اس کی کراہیت کے پھل دینے شروع کردیے ہیں ،خاص طور پر غیر مسلمان اور عالم مغرب کے لوگوں  کے لئے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر ہوگئے ہیں کہ آیا اسلام وہ ہے جو اسلام کے حقیقی علما پیش کرتے  ہیں ؟ یا اسلام وہ ہے جو ان کو ٹی وی چینلز پر نظر آتا ہے ؟ یہ تو حتمی بات ہے کہ تصویر یا ویڈیوز لوگوں تک کتابوں یا آڈیو سے زیادہ جلدی پہنچتی ہے اور ان کے ذہنوں پر زیادہ اثر کرتی ہے،  اسی لئے میں آپ کے سامنے بعض ایسی حقائق سامنے رکھنے پر مجبور ہوں جس کو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیے کیونکہ آج کل کی آفتوں سے نجات حاصل کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے یہ آفت دنیا کے مختلف علاقوں کو اپنا نشانہ بنارہی ہے اور اس کی قیمت دیگر مذاہب کے لو گ اپنے خون ، آنسو ، گھر ، عزیز اور آبرو کی قربانی دے کرادا کررہے ہیں۔

اسی لئے ہمیں ایک اہم سوال پوچھنا  پڑے گا جس کا صحیح جواب اسلام کا حقیقی مفہوم اور تصور پیش کرنے میں پہلا مرحلہ ہو گا۔

یہ سوال یہ ہے کہ : اسلام کا گزشتہ مذاہب سے کیا رشتہ رہا ہے ؟ کیا یہ گشیدگی اور بد اعتمادی کا رشتہ ہے ؟ یا مودت ،محبت اور بھائی چارہ کا رشتہ ہے ؟آپ کو حیرانی ہوگی کہ میری نظر میں یہ سوال ایک غیر منطقی سوال ہے کیونکہ قرآن کی زبان میں "اسلام" ایک خاص دین کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اس مشترکہ دین کا نام ہے جس کو تمام سابقہ انبیاء اور رسولوں نے مانا تھا ۔  تاہم قرآن پاك حضرتِ ابراہيمu سے "حنيف" اور "مسلم" كےنام سے مخاطب ہوئے "مسلم" كے اس لفظ كا يہ مطلب نہيں ہے كہ وه مسلمان تهے يا رسالتِ محمديہ پر ايمان ركهتے تهے جو حضرت ابراہيمu كے ہزاروں سالوں بعد نازل ہوئى تهى۔ حضرت اسماعيلu اور حضرت اسحاقu كو بهى "مسلمين" كے لفظ سے پكارا گيا۔ ارشاد بارى تعالى ہے "رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ" (بقره: 128) (اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو) حضرت يعقوبu كى اولاد اپنے باپ سے ايسے مخاطب ہوئے تهے: "نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ" (بقره: 133) (آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں) حضرت نوحu نے كہا: "وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ" (يونس:72) (اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں رہوں) حضرت موسىu نے فرمايا: "يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ" (يونس :84) (اور موسیٰ نے کہا کہ بھائیو! اگر تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسہ رکھو) حضرت عيسى كے حواريوں نے كہا: "نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ" (آل عمران: 52) (ہم خدا پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں) تاہم قرآن مجيد ان حقائق پر مبنى ايك اور حقيقت كا اقرار كرتا ہے جو يہ ہے كہ اسلام كى رسالت  جوہر اور حقيقى مضمون كے اعتبار سے باقى تمام آسمانى رسالات سے ملتى ہے اور يہ كہ الله سبحانہ وتعالى نے مسلمانوں كے لئے ايك نئے دين كى تشريع نہيں كى بلكہ وحى كے ذريعہ جو پہلے انبياء پر نازل ہواتها وہى رسول پاك پر بهى نازل ہوا ، ارشاد بارى تعالى ہے : "شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ" (شورى: 13( (اسی نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے۔ الله جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے۔)

        قرآن پاك تمام آسمانى كتابوں كى تصديق كرتا ہے اور اس ميں توريت اور انجيل كا "نور" اور" ہدايت دينے والے" جيسى صفات سے ذكر كيا ہے۔ ارشاد بارى تعالى ہے: "إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا" (مائده:44) (بیشک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں)۔ فرمان الہى ہے: "وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ" (مائده: 46) (اور ان پیغمبروں کے بعد انہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور ان کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اس سے پہلی کتاب (ہے) تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کو راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے۔)

        نبى كريم r نے فرمايا: «نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور انبیاء علیہم السلام علاتی بھائیوں ( کی طرح ) ہیں ۔ ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے۔» ا سكا مطلب ہے كہ انبياء كرام بهائيوں كى طرح ہيں جن كا باپ تو ايك ہے ليكن مائيں مختلف، رسول اكرم نے ا س امر كى نہايت خوبصورت طريقہ سے تصوير كشى كى ہے ،آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے دين كو ايك باپ سے تشبيہ دى ہے اور مختلف شرائع كو مختلف ماؤں سے، جو زمانے واحوال كى تبديلى كے ساتھ بدلتے رہے۔ ہمارى شريعت كا معروف قاعده (اصول) ہے كہ "ما قبل تشريعت كا كوئى نص، ہمارى شريعت كے كسى نص سے جب تك نا ٹكڑائے، تب تك  ہم اس پر عمل كريں گے۔ تو ميرا جواب يہ ہے كہ قرآن پاك نے مسلمانوں كا عيسائيوں اور يہوديوں كے ساتھ  تعلقا ت كو تفصيل سے بيان كيا ہے كيونكہ يہ جزيرۂ عرب اور فرس وروم كے سب سے بڑے آسمانى مذاہب تهے۔ جبكہ هندومت، بدھ مت وغيره جيسے مذاہب عربوں كے لئے نامعلوم تهے ليكن اس كے باوجود قرآن پاك اور سنت نبوى نے مسلمانوں كو ان كے ساتھ پيش آنے كے اصول سكهائے۔ ارشاد بارى تعالى ہے: "لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ *إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ" (ممتحنہ: 8، 9) (جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ( 8 ) خدا ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں)۔ اس كا مطلب ہے كہ قرآن پاك تمام لوگوں كو برابر كى نظر سے ديكهتا ہے اور تمام انسانوں كو ايك باپ اور ايك ماں كى اولاد سمجهتا ہے اور اس بات كا اقرار كرتا ہے انسانيت كى رو سے تمام انسان بهائى  بھائ ہيں اور ايك انسان كى دوسرے انسان پر فضليت صرف تقوى اور نيك عمل پر ہوتى ہے۔

محترم حضرات!

        وه مذہب ہے جو ايسے محكم اور اٹل نصوص پر مبنى ہو ں،ان كو تشدد،  دہشت گردى  اور قتل وغارت سے موصوف كرنا سراسر غلط ہے۔ يہ سراسر ظلم ہے كہ چند جاہل پيروكاروں كى غلط كاروائيوں كى وجہ سے دين پر ہى الزام لگا ليا جائے۔ غير مسلمانوں كو چاہيے كہ وه ان باطل اور جهوٹے الزامات كو انصاف كى نگاه سے ديكهيں ورنہ كوئى بهى آسمانى مذہب دہشت گردى كے الزام سے بچ نہيں پائے گا، اس موقعہ پر ہميں فقہ اسلام كى روشنى ميں مسلمانوں اور غير مسلمانوں كے درميان  رشتے كى نوعيت كے بارے ميں جاننا چاہيے۔ كيا يہ رشتہ خون كا رشتہ ہے يا امن وامان اور بهائى چاره كا رشتہ ہے۔ اس سوال كا جواب دينے كے لئے ہم بعض قرآنى نصوص كى مدد لے سكتے ہيں جن كى بنياد الہى قوانين ہيں- اُن ميں سب سے پہلا قانون... اختلاف كا   قانون ہے، يہ الله كى مشيت ہے  كہ اس نے اپنى مخلوقات كو مختلف بنايا، وه اگر چاتا تو وه سب كو ايك مذہب، ايك رنگ اور ايك ہى زبان بولنے والا بنا ديتا، ليكن يہ اُس كى مشيت نہ تهى، اُس كى مشيت اس كے برعكس تهى۔ ہم جانتے ہيں كہ اس دنيا ميں كسى بھى دو  اشخاص كے (Fingerprints)  انگلیوں کے نشانات يا (eye prints)  آنکھوں کے نشانات ايك جيسے نہيں ہو سكتے۔ قرآن اس حقيقت پر زور ديتا ہے اور تاكيد كرتا ہے كہ يہ اختلاف ہميشہ قائم رہے گا۔ ارشاد بارى تعالى ہے: "وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْۗ" (اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے (118) بجزان کے جن پر آپ کا رب رحم فرماۓ انہیں تو اسی لیے پیدا کیا ہے۔)

"لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا" (تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستوار  اور  راہ مقرر کر دی ہے)

" هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ"

(اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالى خوب دیکھ رہا ہے)

چنانچہ لوگوں کے درمیان فرق اور اختلاف ایک سنت الہی ہے جس کا قرآن پاک میں محکم نصوص کے ذریعہ ذکر ہوا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مختلف لوگوں کے درمیان کا یہ رشتہ اختلاف کی اس حقیقت کو قبول کرتا ہو اس کے متضاد یا اس کے بر عکس نہ ہو۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا  کہ اللہ لوگوں کو مختلف بناتا اور پھر ان کو اس اختلاف کی وجہ سے قتل کرنے کا حکم دیتا۔

قرآن پاک میں دین یا عقیدت میں زبردستی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالى  ہے " لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ " (دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں)، اور یہ بھی کہا: " فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ " (اب جو چاہے ایمان لاۓ اور جو چاہے کفر کرے)، فرمان الہی ہے " أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ " (تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہو جائیں)، اللہ تعالى  فرماتا ہے " وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ " (اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راہ راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہو جائیے)، ارشاد باری ہے "لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ" (آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں).

اس طرح قرآن ہی میں مسلمانوں کے معاشرتی اور بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت مقرر کردی گئی ہے ، اللہ تعالى نے لوگوں کو مختلف بنایا اور پھر عقیدت اور مذہب اختیار کرنے کی آزادی دی اسی لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان کا یہ تعلق "امن وسلامتی" اور "تعارف" پر مبنی ہونا چاہیے۔ ارشاد باری ہے " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ "{الحجرات: 13} (اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنادیے  ہیں اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے)۔ اسی لئے اسلام بلا شک وشبہ امن وسلامتی اور مساوات کا دین ہے، اسی لئے یہ بات سراسر غلط ہے کہ اسلام میں کسی کو کافر ہونے کے نا طے قتل کرنا جائز ہے یہ بات قطعی طور پر غیر صحیح ہے۔ اسلام میں کسی کو قتل کرنا صرف جارحیت اور کسی حملہ سے اپنے آپ کو بچانے کی حالت میں جائز ہے۔ فقہ کی تمام کتابوں میں جس میں اسلامی فتوحات کے احکام کا ذکر ہوا ہے،  بیان ہے کہ فتح کئے جانے والے ملک کے باشندوں کو اپنے مذہب پر رہنے اور اپنے مکمل حقوق حاصل کرنے کا حق ہے۔

اسلامی فتوحات کی تاریخ میں کبھی بھی ایسی فتح کا ذکر نہیں ہوا جس میں مسلمانوں نے فتح کرنے والے ملک کے باشندوں کو اسلام لانے یا مرنے کے مابین اختیار دیا ہو۔ ہم مسلمانوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ تمام لوگوں کا ایک ہی مذہب یا ایک ہی عقیدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ لوگوں کے درمیان یہی تنوع اور اختلاف امت مسلمہ کی قوت کا حقیقی سبب ہے۔

 شائد آپ لوگ میرے اس بات سے موافق ہوں گے کہ اس موجودہ دور میں اس صحیح فہم وفراست کی آواز بازگشت لگانے اور اس کو فروغ دینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں جس پر مسلمان ایک عرصہ دراز تک کار فرما اور گامزن تھے، اور اس بات سے بھی مفر نہیں کہ علماء کرام واقعیت کی طرف متوجہ ہوں، اور دینی معاملات میں فتوے کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لیں، اور اسی طرح علماء اسلام مشرق ومغرب کے چهپے چهپے میں بلکہ دنیا کے ہر خطہ اور ہر علاقے میں دین کی حقیقت، اخوت وبھائ چارگی اور لوگوں کے مابین تعارف، امن وآشتی کے پیغام کو واضح انداز میں بیان کرنے کی ذمہداریوں کو قبول کریں،اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بیان کریں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جس نے یہ بیان کیا کہ لوگوں کا ناحق خون بہانا، ان کی عزتوں کو پامال کرنا اور ان  کے مال ودولت کو ناجائز طریقہ سے استعمال کرنا یہ سب حرام ہے، یہ ایسا اسلامی اور انسانی قانون ہے جس کی نظیر اور مثال اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممكن  ہے، اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جسے آخرت سے قبل دنیا ہی میں قتل عمد کے باب میں سخت سزا دینے کے سلسلہ میں ایک انفرادی  حیثیت حاصل ہے  ـ

محترم علما حضرات

 میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اختلاف کے صحیح فہم وفراست کو دوبارہ فروغ دینے کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے، اور اس ا ختلاف سے میری مراد تنوع اور کثرت کا اختلاف ہے جو امت اسلامیہ کی فلاح وبہبود اور نشاۃ ثانیہ کا بہت ہی مؤثر اور طاقتور ذریعہ تھا، تاکہ ہم قابل تعریف اختلاف اور اس قابل مذمت اختلاف میں فرق کر سکیں جس کی وجہ سے آج پوری امت اسلامیہ کی دانشمندی اور سمجھداری عجیب وغریب کیفیت سے دوچار ہے، اس کے ساتھ ہی یہ  بھی مشاہدہ میں ہے کہ جو مسائل ظنی تھےوہ قطعی مسائل ہو  گئے، جو متشابہ تھےوہ محکم ہو گئے، جو خفی الدلالۃتھےوہ واضح الدلالۃ ہو گئے اور جو عام تھےوہ خاص ہو گئے، اور اسی طرح ہم اس دانشمندی اور عقلمندی کی روشنی میں ایسے مشترکہ اصول وضوابط دوبارہ اخذ کریں جن کی روشنی میں  مسلمانوں نے عقیدہ اور شریعت کو سیکھا اور اسے اچھے انداز میں حاصل کیا، اور لوگوں کو ان کی ہی حالت پر چھوڑ دیں بایں طور پر کہ وہ اپنے علاقہ کے علماء کرام کے بتائے  ہؤے  متفقہ طریقہ پر زندگی گزار رہے ہوں اور امت نے متفقہ طور پر جس طریقہ کو اختیار کیا ہے وہی طریقہ صحیح اور غلط کے درمیان فیصل کل ہے،اور ہم لوگوں کے لیے عقیدہ اور عبادت کے باب میں کوئی نیا مذہب اور کوئی نیا طریقہ نکالنے سے گریزکریں، پھر اسے ان پر ترغیب وترہیب کے ذریعہ لازم کرنے سے بھی پہلوتہی برتیں، اور اپنے بچوں کو تعلیم دیں کہ ہمارے سلف صالح نے(صحابہ  رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک)کیسے اختلاف کیا لیکن آپس میں تفریق پیدا نہیں ہونے دیا، علمی ضوابط سے نکلنے والے اختلاف کی انارکی ہی نے مسلمانوں کے مابین ایک دوسروں کو کافر وفاسق قرار دینے اور تشدد کے رجحانات کو ہوا دیا ہے، اسی طرح اس انارکی نے گھات میں لگے دشمنوں کو اس امت اسلامیہ کی وحدت کو چاق اور پارہ پارہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے  ـ

میں جانتا ہوں کہ میں نے آپ حضرات کے روبرو عام فہم باتوں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا لیکن غالب گمان یہ ہے کہ موجودہ دور کے ہمارے بھت سے  نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ باتیں غیر واضح ہیں، خاص طور پر یونیورسیٹیوں میں زیر تعلیم  مسلم اور غیر مسلم طلبہ کے ذہنوں میںیہ باتیں غیر واضح ہیں، اور مجھے نہیں معلوم کہ جامعات اور مدارس میں متعین شدہ نصاب نے ان مسائل پر سنجیدگی اور پوری حقیقت اور ماہیت کے ساتھ  بحث کیا ہے یا نہیں، اسی طرح نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود غلظ فہمیوں اور تساولات کا ازالہ کیا ہے یا نہیں، ان نوجوانوں کو مسلح تشدد کی دعوتوں کا لقمہ تر بننے سے محفوظ کیا ہے یا نہیں اس کا علم مجھے نہیں ہے، اور گذشتہ سال سے ازہر شریف نے اپنے ماتحت چلنے والے معہدوں کے طلبہ کے لئے ایسے نصاب پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس نصاب  نے دہشتگردی سے متعلق ان مسائل کو جنہیں دہشتگرد حربہ کے طور پر اپنے مفاد کے لۓ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ(ایک دوسرے کو کافر قرار دینا، ہجرت، حاکمیت، جاہلیت اور خلافت جیسے مسائل)، اوراسی کے ساتھ ہی ساتھ ازہر کے زیر نگرانی امن وسلامتی کے   قافلے روانہ کئے جاتے ہیں تاکہ یہ قافلے دنیا کے چپے چپے میں امن وسلامتی کی دعوت وپیغام کو عام کریں اور اسے فروغ دیں، اور ماضی قریب ہی میں اپریل کے مہینہ میں آخری قافلہ نائجیریا روانہ کیا گیا تھا، اسی طرح ازہر میں مختلف ملکوں کے ائمہ اور داعی حضرات کے تدریب اور علمی مشق کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں پوری دنیا کے چیدہ اور چنیدہ علماء کرام تشریف لائے تھے ان میں نائجیریا کے بھی علماء کرام شامل تھے جن میں سر فہرست نائجیریا کے مفتی اعظم شیخ ابراہیم صالح حسینی تھےـ

معززین حضرات :

میں آپ حضرات سے اپنی طویل گفتگو پر معذرت خواہ ہوں، اور میں اپنی گفتگو اس بات پر مکمل کرنا چاہتا ہوں کہ نائجیریا کی اس سر زمیں پر اس کے تمامی باشندوں کے مابین ازہر کی طرف سے یہ زیارت اس کی وحدت، استقرار ، علمی اور تعلیمی بیداری اور ترقی  میں معاون اور ممد ثابت ہوگی، اور اگر اللّٰہ نے چاہا تو یہ بیداری ضرور رنگ لائیگی اور پورے افریقہ میں ہر طرح کی خیر وبھلائی اور علمی اور تکنیکی پیش رفت کا ذریعہ ہوگی، اور نائجیریا کے عوام انسجام اور ہم آہنگی کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کے مابین جامع اپنے سنہرے ماضی کی تاریخ ضرور دوبارہ رقم کریں گے ـ

اور ازہر شریف کو یہ سعادتمندی حاصل ہے کہ وہ اس تہذیبی اور ثقافتی کارواں اور تحریک کو دعم کر رہا ہے، اور آپ حضرات میں سے ہر فرد بشر کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ ازہر میں نائجیریا کے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں، ان میں سے چار سو سے ذیادہ کی تعداد ازہر کیطرف سے عطا کردہ وظیفہ پر زیر تعلیم ہیں، پچھلے چند سالوں سے ازہر نائجیریا کے طلبہ اور طالبات کے لئے ہر سال تیس طلبہ اور طالبات کے لئے وظیفے خاص کرتا آرہا ہے لیکن اس زیارت کی مناسبت سے ازہر اس سال سے جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے والے شوقین طلبہ اور طالبات کے لئے تیس کے بجائے پچاس وظیفے خاص کرنے کا اعلان کر رہا ہے، اور یہ اس شرط کے ساتھ کہ یہ ذیادتی کلیہ طب، صیدلہ اور ہندسہ کے ساتھ خاص ہونگے، اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہونا چاہئے کہ ازہر اپنے تعلیمی اور دعوتی وفد کے ذریعہ ان ناپسندیدہ تعصبانہ اور ایک ہی ملک کے باشندوں کے مابین بغض وحسد اور انتشار وافتراق کو ہوا دینے والے افکار سے مکمل دوری اختیار کرتے ہؤے  صحیح سالم دینی فکر پیش کرنے میں ہمہ تن مشغول ہےـ

اور آخر میں میں آپ کا ممنون ومشکور ہوں کہ آپ نے میری باتوں کو بغور سنا، اللہ سے دعا ہے کہ کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔آمین

                                        والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

 

 

 

 

 

Print
Categories: Uncategorized
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.