انسانى اختيار اور اراده

  • | پير, 13 مئی, 2019
انسانى اختيار  اور اراده

     اخلاق كا دارومدار آزادى  پر ہوتا  ہے، اگر آزادى نہ ہوتى تو ذمہ داريوں كى حد بندى ہر گز نہ ہوتى اور يہ ممكن نہ ہوتا كہ ہم كسى فعل كے بارے ميں كہہ سكتے كہ يہ اخلاقى ہے اور يہ غير اخلاقى. الله تعالى نے دو قسم كى مخلوقات كو پيدا  كيا ہے، ان ميں ايك مسخر ہے جن كا نہ كوئى اپنا اراده ہے اور نہ اختيار ، اطاعت اور فرمانبردارى كے سوا ان كے سامنے كوئى دوسرا راستہ نہيں، يہ انسان كے علاوه الله تعالى كى تمام ديگر مخلوقات ہيں. جبكہ دوسرى قسم: انسان ہے جو ايك مكلف اور ذمہ دار مخلوق ہے، اور ذمہ دارى كام كے كرنے اور نہ كرنے كى آزادى پر مبنى ہے، جيسا كہ قرآن كريم كا فرمان ہے: "فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر" (اب جو چاہے ايمان لائے اور جو چاہے كفر كرے) (سورۂ كہف: 29). اور اسى پر ثواب وعقاب كا مسئلہ مرتب ہوتا ہے، جس كى جانب قرآن نے اشاره كرتے ہوئے كہا ہے: "من عمل صالحًا فلنفسه ومن أساء فعليها" (جو شخص نيك كام كرے گا وه اپنے نفع كے ليے اور جو برا كام كرے گا اس كا وبال اسى پر ہے) (سورۂ فصلت: 46)-

يہ بات صحيح ہے كہ الله تعالى ہر فرد كو جانتا  ہے كہ  وه اچها كرے گا، يا  برا، ايمان لائے گا يا كفر اختيار كرے گا، ليكن الله تعالى كا علم كرنے يا نہ كرنے پر مجبور كرنے والا علم نہيں ہے، بلكہ وه ازلى علم ہے كہ كس شخص سے كيا صادر ہوگا، ليكن فعل كا سرزد ہونا يا نہ ہونا، يہ خود انسان كى آزادى كى بنياد پر ہے، تو اس صورت ميں كسى طرح بهى قضا اور قدر كو ملامت كرنا مناسب نہيں ہوگا، اس بات ميں كوئى اختلاف نہيں ہے كہ الله تعالى  نے  ہر  چيز كو ازل سے مقدر كرركها ہے اور اسى طرح انسان كا آزاد ارادے كے ساتھ پيدا كيا جانا بهى ازل سے مقدر ہے-

ہم اپنى عملى زندگى ميں اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ تعليم وتربيت اور تہذيب وثقافت كا انسان كے سلوك كى تبديلى ميں اثر ہوتا ہے، چنانچہ  ہم قانون بناتے ہيں اور برا كرنے والوں كو سزا اور اچها كرنے والوں كو معاوضہ ديتے ہيں، تو اگر انسان مجبور ہوتا، اسے آزادى اور اراده كا اختيار نہ ہوتا، تو تعليم وتربيت، وعظ وارشاد، قانون سازى اور ثواب وعقاب كى كوئى ضرورت نہ ہوتى، ان تمام وجوہات كى بنا پر  يہ تسليم كرنا پڑتا ہے كہ يہاں ايسى ذات ہے جسے اراده كى آزادى حاصل ہے اور جو كرنے اور نہ كرنے پر قادر ہے-

اجبار كى بات ايسى ہے جو زندگى ميں اميد كے تمام دروازوں كو بند كرديتى ہے اور اميد كے بغير نہ تو انسان زندگى ميں ترقى كر سكتا ہے اور نہ علم ميں آگے بڑھ سكتا ہے، بلكہ وه رك جائگا اور پيچهے  ره جائے گا، جس سے زندگى ٹھہرجائے گى اور انسانيت مفلوج ہوجائے گى-

يقينا دين نے ہميں اميددى ہے، اور ہمارے اندر اس بات كا بهروسہ اور يقين پيدا كيا ہے كہ ہم بہتر تبديلى پر قادر ہيں، اس بات كى وضاحت كے ساتھ كہ يہ تبديلى خود آسمان سے نازل نہيں ہوگى، بلكہ اس كا تعلق ہمارے اراده سے ہے جو اس تبديلى كى صلاحيت ركهتا ہے، اور اس سلسلہ ميں قانونِ الہى سے زياده سچى بات ہوسكتى ہے: "إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم" كسى قوم كى حالت الله تعالى  اس وقت تك نہيں بدلتا جب تك كہ وه خود اپنے آپ كو  نہ بدليں  ( جو ان كے دلوں ميں ہے) (سورۂ رعد: 11)-

پس الله تعالى نے اپنے آپ كو بدلنے اور بہتر يا بدتر بنانے كى ذمہ دارى انسان ہى كو سونپى ہے، اور فساد كو بهى نفس كى طرف منسوب كيا ہے- ارشاد بارى ہے "قد أفلح من زكاها (9) وقد خاب من دساها" (جس نے اسے پاك كيا وه كامياب ہوا- اور جس نے اسے خاك ميں ملا ديا ناكام ہوا) (سورۂ شمس: 9/ 10)-

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.