روزه كے مقاصد

  • | منگل, 14 مئی, 2019
روزه كے مقاصد

     رمضان كامہينہ اسلام ميں روزوں كا مہينہ ہے، قرآن  پاك ميں روزوں  كا حكم ديتے ہوئے   الله رب العزت نے فرمايا  كہ" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون"َ ، ترجمة:"مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو"(البقرة:183).
شروع ميں ہميں يہ جاننا چائيے كہ روزه كيا ہے؟روزه خود انضباطى كى مشق ہے،روزه كے دنوں ميں آدمى خود اپنے اراده اور فيصلے سے كھانا پينا چھوڑ ديتا ہے، اس كے بعد جب شام كا وقت آتا ہے تو دوباره وه خود اپنے اراده اور فيصلہ سے كھانا كھاتا ہے اور پانى پيتا ہے، اس طرح وه اپنے آپ كو خود انضباطى كى زندگى گزارنے كے لئے تيار كرتا ہے،سال كے ايك مہينہ ميں كھانے پينے كے معاملہ ميں روزه دار بن كر وہ اپنے آپ كو اس قابل بناتا ہے كہ سال كے بقيہ مہينوں ميں وہ اپنے ہر معاملہ ميں روز دار نہ زندگى گزار سكے۔
     روزه خود اختيار كرده پابندى كى تربيت  كے لئے روزه كا نظام مقرر كيا گيا ہے،روزه كوئى سالانہ رسم نہيں، وه ايك سالانہ تربيت ہے، روزه وقتى طور پر بھوك پياس برداشت كرنے كا نام نہيں، روزه مستقل طور پر صبر وبرداشت  كى زندگى گزارنے كا ايك سبق ہے۔
روزه ميں آدمى كے سامنے كھانا  اور پانى ہوتا ہے مگر بھوك پياس كے باوجود وه ان كو نہيں كهاتا ،اسى طرح يہ مطلوب  ہے كہ آدمى كو خدا كى مرضى كے خلاف چلنے كا موقع ہو مگر خواہش  كے باوجود وه ايسے راستہ پر نہ جائے ،آدمى كے لئے گھمنڈ كرنے كا امكان پورى طرح موجود ہو،مگر چا ہنے كے باوجود وہ گھمنڈ كو چھوڑكر تواضع كا طريقہ اختيار كر لے، آدمى كے لئے بے انصافى كے دروازے  كھلے ہوئے ہوں مگر طبيعت كے تقاضے كے باوجود وه زيادتى اور بے انصافى سے دور رہے۔
روزه ميں كھانے پينے كا ترك  ايك علامتى   يايوں كہيں ايك مجازى ترك ہے، جو اس بات  كا سبق   ديتا ہے كہ آدمى  ہر  قسم  كے برائى كو چھوڑ دے، وه اپنے معاملات  ميں اخلاقى  پابندى  كا طريقہ  اختيار كرے۔ اس طر ح روزه انسان كو سماج كا ايك نفع بخش  اور مفيد ركن يا  ممبر بناتا ہے، وه انسان كو  اس مقصد كے ليے تربيت ديتا ہے كہ وہ لوگوں كے درميان اعلى كردار كے ساتھ زندگى گزارے اور پست كردارى  كا طريقہ چھوڑ دے۔
روزه كا مقصد يہ ہے كہ وه روزه دار كے اندر انسانيت كا درد پيدا كرے ، وه دنيا ميں صرف اپنے لئے  نہ جئے بلكہ دوسروں كے لئے جينا سيكھے، حديث ميں ہے اللہ تعالى قيامت ميں انسان سے فرمائے گا كہ ميں تمہارے پاس بھوكا آيا مگر تم نے مجھے كھانا نہيں كھلايا، بنده كہے گا كہ خدايا تو رب العالمين ہے تو كيسے بھوكا  ہو سكتا ہے ، اللہ تعالى كى طرف سے جواب آئے گا كہ ميرا فلان بنده بھوك كى حالت ميں تيرے پاس آيا تھا اگر تو اس كو كھلاتا تو مجھ كو تو اس كے پاس  پاتا (البخارى، كتاب المرض)۔
روزه كا  ايك اور  مقصد يہ ہے كہ وه آدمى كے اندر يہ صفت پيدا كرنا ہے كہ اس كى روح سراپا سلامتى بن جائے ، وه اپنے سماج كے اندر امن وسلامتى كے ساتھ رہنے لگے، ناخوشگوارويوں  كے ماحول  ميں بھى خوشگوار جذبات كے ساتھ جينے لگے۔ جس انسان كے اندر سلامتى كى يہ صفت پيدا ہوجائے اس كا وجود  پورے ماحول كے ليے سلامتى بن جاتا ہے، وه سماج كا ايك ايسا پر امن شہرى بن جاتا ہے جس سے دوسروں كو صرف امن وسلامتى ملے، حتى كہ دوسرے لوگ اگر اس كو ستائيں تب بھى وه اپنى پر امن روش پر پورى طرح قائم رہے۔
روزه آدمى كو محتاجوں  كى حالت كا احساس دلاتا ہے، تاكہ جب اس كى احتياج پورى ہو تو وہ بھر پور كيفيت كے ساتھ كہہ سكے كہ خدايا ، تيرا شكر ہے كہ تو نے ميرى ضرورتوں كى تكميل كا اتنا  اعلى انتظام فرمايا۔ اور مجهے اتنى نعمتوں سے نوازا جس كا احساس كبهى كبهى ميں بهول جاتا ہوں .

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.