اسلام ميں اميد ورجا كى حيثيت

  • | جمعرات, 16 مئی, 2019
اسلام ميں اميد ورجا  كى حيثيت

اميد زندگى كى شہ رگ ہے...  اس عبارت ميں كوئى  مبالغہ آميزى نہيں ہے، كيونكہ اميد ہى وه چيز ہے جس كى وجہ سے انسان زندگى سے محبت كرتا ہے اور انسان اپنى ذات ومعاشرے كى بهلائى اور خودزندگى كى ترقى كے لئے كام كرتا ہے-

دين اسلام كى شان يہ ہے كہ وه دلوں ميں اميد كى جوت جگاتا ہے- وه ايمان اور اميد كے ما بين پختہ ربط وتعلق قائم كرتا ہے اور وه دونوں ايك چيز بن جاتے ہيں،  پس مومن پر مايوسى وناكامى يا پريشانى طارى نہيں ہوتى كيونكہ وه الله تعالى كى رحمت اور عدل وانصاف پر يقين واعتماد ركهتا ہے ، يہ كہ وه كسى كا اچها عمل ضائع نہيں كرتا، الله تعالى اپنے بندوں پر ان كى ماں سے زياده رحيم اور شفيق ہے يہى وجہ ہے كہ وه مومن وكافر دونوں كو رزق ديتا ہے، ليكن وه ظالم  كو مہلت  ديتا ہے اور جلد يا بدير اس كى سزا سے غفلت نہيں كرتا، قرآن كريم يقين دلاتا ہے كہ مومن مايوس نہيں ہوتا، فرمان بارى ہے "إنه لا ييئس من روح الله إلا القوم الكافرون" ( يقينًا رب كى رحمت سے نا اميد وہى ہوتے ہيں جو كافرہوتے ہيں) (سورۂ يوسف: 87)-

الله تعالى نے گناه گاروں كيلئے توبہ اور اميد كا دروازه كهول ركها ہے- ارشاد بارى تعالى ہے: "قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعًا إنه هو الغفور الرحيم" (ميرى جانب سے) كہہ دو كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم الله كى رحمت سے نا اميد نہ ہو جاؤ،  باليقين الله تعالى سارے گناہوں كو بخش ديتا ہے، واقعى وه بڑى بخشش بڑى رحمت والا ہے) (سورۂ زمر: 53)_ اور نبى كريم ﷑ مايوسى  ونا اميدى شكار لوگوں كو اميد كا پيغام ديتے ہوئے فرماتے ہيں: غلطى كرنا انسان كى فطرت ہے، اور اس ميں كوئى عيب نہيں، (مگر) غلطى پر اصرار انسان كو الله تعالى سے دور كرديتا ہے، حديث نبوى ہے كہ: ہر انسان ہى خطا كار ہے، اور خطا كاروں ميں كثرت سے توبہ كرنے والے بہتر ہيں"  . الله تعالى  دراصل انسان كے (بہت) قريب ہے، جو اس سے دعا كرتا ہے وه اسے قبول فرماتا ہے، بلكہ وه اس كى شہہ رگ (جان) سے بهى زياده قريب ہے، اسى لئے وه انسان كو حكم ديتا ہے كہ وه بلا واسطہ اسى سے مانگے اور دعاكرے، فرمان بارى ہے "ادعونى أستجب لكم" (مجھ سے دعا كرو ميں تمہارى دعاؤں كو قبول كروں گا) (سورۂ غافر: 60)-

قرآن كريم اس كو واضح انداز ميں بيان كرتا ہے كہ مومن انسان كى زندگى كے آخرى لمحے تك الله تعالى سے اميد قائم ركهتا ہے، اسى وجہ سے نبى كريم ﷑ مومنوں  كو زندگى كے آخرى سانس تك خير وبهلائى كرنے كى ترغيب ديتے ہيں يہاں تك كہ اگر حشر بپا ہوجائے اور انسان كچھ  كر سكتا ہو تو اسے كرنا چاہئے، ارشاد نبوى ہے: اگر قيامت كى گهڑى  بهى آجائے اور تم سے كسى كے ہاتھ ميں كوئى پودا ہو اور وه اسے لگا سكتا ہو تو  اس كو  ايسا كرنا چاہئے" –

بے شك اميد پر ہى زندگى قائم ہے، اور اسى طرح اميد انسان ميں اعتماد پيدا كر كے اسے شعور عطا كرتى ہے كہ وه تمام پيش آمده مشكلات پر قابو كر  سكتا ہے، كيونكہ اميد ہى انسان كو ركاوٹوں پر غلبہ حاصل كرنے كے اسباب فراہم كرتى ہے- اور  ہمارى زندگى كا صرف ايك پہلو نہيں ہے، اس ميں خير بهى ہے اور شر بهى، اس ميں مثبت پہلو بهى ہيں اور منفى بهى، تو ہميں مثبت پہلو كو غالب ركهنا چاہئے جو ہميشہ اميد كا پہلو ہوتا ہے، تاكہ اس كے ذريعے ہم زندگى ميں منفى پہلووں پر غلبہ حاصل كر سكيں، چنانچہ انسان پختہ عزم واراده  اور اميد پر قائم رہنے سے ہى دنياوى مايوسى اور ناكامى كا مقابلہ كر سكتا ہے-

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.