اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر(2).. مہذب دين

  • | پير, 20 مئی, 2019
اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر(2).. مہذب دين

      اسلام كى متعدد خصوصيات وامتيازات ميں سے ايك خصوصيت يہ  ہے كہ  يہ دين اپنے ماننے والوں كو اخلاق وتہذيب  سكھاتا ہے  اور بد خلقى اور غير شائستہ حركات سے بچنے كى تلقين كرتا ہے ، اس كى يہ تعليمات زندگى كے تمام شعبوں پر محيط  ہيں چاہے  انفرادى زندگى ہو ، يا اجتماعى ، خوشى كا موقع ہو ، ياغم كا، ہر موقع  اور ہر معاملے ميں  اسلام نے انسان كى حفا عزت كو محفوظ ركها ہے.

قرآن  وحديث ميں اخلاق كى عام تعليمات  دى گئى ہيں جن ميں فضائلِ  اخلاق، سچائى، سخاوت ، عفت ، ديانت دارى ، شرم  وحيا ، عہد كى پابندى ،   رحمدلى ، احسان، عفو ودر گز ، حلم وبردبادى ، تواضع ، خوش كلامى، ايثار ، اعتدال ، خودارى ، استقامت ، حق گوئى  جيسى ديگر صفات اپنے  اندر پيدا كرنے كى ہر فرد مسلم كو تلقين كى گئى ہے . اسى طرح رذائل ِاخلاق جيسے جهوٹ ، خيانت ، غيبت ، چغل  خورى، بدگمانى ، كنجوسى ، فخر وغرور، ، بے ايمانى ، چورى، غيظ وغضب ، حسد ، بغض  وكينہ ، خوشامد اور ظلم جيسے نا پسنديده  اوصاف سے بچنے كا حكم ديا گيا ہے ، ان اخلاقى تعليمات پر عمل كرنے سے  آدمى كافى حد تك  مہذب  وشائستہ  ہو جاتا ہے .مگر اس پر مستزاد اسلام ميں  بعض ايسى تعليمات ملتى ہيں جن سے ثابت  ہوتا ہے كہ اسلام اپنے  ماننے والے  كو انتہائى  درجہ مہذب  اور  شائستہ  بنانا چاہتا ہے ،  ذيل ميں  ان ميں سے كچھ مثاليں  درج  كى جار ہى  ہيں:

  1. خود كشى  تذليل انسانيت ہے:

   اللہ تعالى نے انسان كو بہت سى مخلوقات پر فضيلت دى ہے اور اس كى تكريم  كى ہے،  اس اعتبار سے اس كى جان كى قدر وقيمت   بہت اعلى ہے ، ہر شخص  اس كى حفاظت كے ليے   روزى ڈهونڈتا  ہے اور دشمنوں سے مقابلہ  كرتا ہے، ليكن  اگر  انسان خود ہى اپنى جان كے درپے ہو جائے اور اس كو ختم كر لے تو يہ اس كى ذلت آميز موت  كا ثبوت  ہے ، اس ليے اسلام نے خود كشى كو حرام  قرار ديا ہے ، اس  سے جہاں  بے شمار ديگر قباحتيں پيدا ہوتى  ہيں،  وہيں  انسان كى تذليل وتحقير بھى  ہوتى ہے، ارشاد ہے:

( ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيماً)[النساء: 29].

ترجمة:(( اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے)).

 ايك روايت ميں  نبى كريم ؐ نے ارشاد فرمايا:

(مومن  كو زيب نہيں ديتا كہ وہ اپنے آپ كو ذليل كرے).

(2)سينہ كوبى بد تہذيبى ہے:

انسان غم  اور صدمہ كے موقع پر بھى  ادب وتہذيب كے دامن كو چھوڑ ديتا ہے ، بعض اوقات وه  آه وزارى  اورسينہ  كوبى كرنے لگتا ہے، نوبت  بسا  اوقات  بال نوچنے اوركپڑے پھاڑنے  تك بهى پہنچ جاتى ہے ، خاص  طور  سے عورتوں كى طرف سے ايسى حركات زياده سرزدہوتى ہيں، انسان  كو  غم   لا حق ہو تو  اس كے دل ودماغ كا متاثر ہونا فطرى  بات ہے،  مگر اسلام اس حالت ميں بھى صبر وضبط كا حكم ديتا ہے اور ايسى باتوں سے منع كرتا ہے جن سے آدمى كے وقار كو ذرا سا بهى ٹهيس پہنچے، چناچہ ايك حديث ميں  وارد ہے:

(وه شخص ہم ميں سے نہيں  ہے جو  (غم ميں) گال، پيٹے، دامن چاك كرے يا جاہليت كى باتيں  كرے).

  1. تحفوں   كى واپسى مكروه ہے:

سخاوت ايك  اچھى صفت ہے جو شخص دوسرے كو دينے كا عادى ہو  وه اعلى ظرف كہلاتا ہے، قرآن وحديث ميں  اس كى بہت سى فضيلتيں بيان كى گئى ہيں،مگر اس وصف كے ساتھ ايك انتہائى نازك مسئلہ  جڑا ہوا ہے كہ  ايك شخص كسى كو  كچھ تحفہ  ميں دے پھر اس كو واپس مانگ لے ،  اس سے كم بد تہذيبى يہ ہے كہ آدمى عنايت كرده  چيز كو واپس تو نہ لے  مگر اس كے بدلے ميں اس شخص كى ايذا رسانى كرے يا احسان جتائے ، قرآن ميں  اس كى بھى مذمت كى گئى ہے، ارشاد ربانى ہے:

"الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله ثم لا يتبعون ما أنفقوا مناص ولا أذى لهم أجرهم عندر ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون ، قول معروف ومغفرة خير من صدقة يتبعها أذى والله غنى حليم"[البقرة 262:263].

ترجمہ:(( جو لوگ اپنا مال خدا کے رستے میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے))

  جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بےپروا اور بردبار ہے)).

  1. گفتگو ميں  بد تہذيبى  كے مظاہر:

انفرادى زندگى  ميں  فرد كے وقار وتہذيب كا ايك مظہر اس كى گفتگو بھى ہے كثرت گفتگو، بے فائده باتيں، جلدى جلدى بولنے كى عادت،  چيخ چلا كر بات كرنا يافحش گوئى كا لب ولہجہ اختيار كرنا يہ سب فرد  كى شخصيت  كو مجروح كرنے والى چيزيں ہيں، اسلام نے ان سے بچنے كى واضح ہدايات دى ہيں، قرآن  ميں راشاد ہے :

"وأقصد في مشيك وأغضض من صوتك إن أنكر الأصوات لصوت الحمير"[لقمان:19]

ترجمہ:(( اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ (اُونچی آواز گدھوں کی ہے اور کچھ شک نہیں کہ) سب آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی ہے)).

رسول اللہ ؐ لعنت بھيجنے والے اور گالى گلوج كرنے والے نہيں تھے بلكہ كسى  بات پر اگر كسى سے ناراضگى كا اظہار  كرنا ہوتا   تو آپ فرماتے "اسے كيا ہو گيا ہے ؟" اس كى پيشانى خاك  آلود ہو."

  1. سرگوشى كے ناپسنديده پہلو :

مجلس  كے بھى بعض  آداب  ہيں جنھيں  ملحوظ ركھنے كا حكم ديا گيا ہے، ان ميں سے ايك  اہم ادب يہ ہے كہ اگر  كسى مجلس ميں  تين افراد  ہوں تو ايك فرد كو تنہا چھوڑ كر دو لوگ آپس ميں سر گوشى  نہ كريں كيونكہ   اس طرح  اس شخص كے اندر بدگمانى پيدا ہونے كا انديشہ ہے،  حضور ؐ  نے فرمايا جب تين لوگ  ہوں  تو دولوگ   تيسرے كو چھوڑ كر سركشى نہ كريں.

  1. فضول گوئى كى مذمت:

آدمى كے وقار وتہذيب كا ايك مظہر اس كى سنجيدگى اور  فضوليات  سے بچنا  بھى  ہے، اگر  آدمى ہر وقت   غير سنجيده رہے يا اپنے آپ كو فضول باتوں ميں لگائے ركھے تو اس كى شخصيت پر اس كا منفى اثر پڑتا  ہے ، يہى وجہ ہے كہ اسلام نے ان سے بچنے كى تلقين  كى ہے، حضور  ؐ نے زياده باتوں ، زياده پوچهنے اور  سوال كرنے ، اپنا مال ضائع كرنے ، والدين كى نافرمانى اور لڑكيوں  كو زنده  در گو كرنے سے منع فرمايا ہے.

خلاصہ شريعت اسلاميہ  نے  ايسى بے شمار تعليمات دى ہيں جن سے آدمى ايك مہذب وباوقار اور سنجيده فرد بنتا ہے اور ايسى باتوں  سے روكا ہے جن سے اس كى شخصيت مجروح ہوتى ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ  يہ دين لوگوں كو تہذيب واداب سكھانے والا دين ہے ، اگر اس كى تعليمات پر آدمى  عمل كرے تو مہذب بنتا ہے اور اگر ان كو  ترك  كردے توتہذيب كے دائره سے نكل جاتا ہے جيسا كہ آج اسلام سے دور قوموں ميں بدتہذيبى كے آثار ديكھے جاتے ہيں

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.