كائناتى سنتوں كے شعور كى قدر وقيمت

  • | پير, 20 مئی, 2019
كائناتى سنتوں كے شعور كى قدر وقيمت

     الله تعالى نے انسان كو عقل سے نوازا ہے وه اس كے لئے زندگى كے راستے روشن كرتى ہے، اور اس نے عقل سے ہى علم تك رسائى حاصل كى. اس كائنات، اور اسباب اور مسبب كے ما بين ربط قائم كرنے والے حقيقى تعلقا ت كو سمجهنے ميں انسان كا ذريعہ علم ہى ہے- كيونكہ انسان كو اپنى زندگى ميں كاميابى مفت ميں نہيں ملتى، اور نہ ہى يہ كاہل وسست لوگوں كو عطا ہوتى ہے، بلكہ سب سے پہلے يہ صحيح منصوبہ بندى، حقيقى عمل اور جد وجہد پر منحصر ہے، اور يہى (امور) مطلوبہ حقيقى مقاصد تك رسائى كے وسائل ہيں-

انسان كے اعمال كا وہمى اسباب سے كوئى تعلق نہيں، جن كا نہ منطق وعقل سے تعلق ہے اور نہ ان كى كوئى علمى ودينى بنياد ہے، اور نہ ہى وه اس انسان كے شرف كے شايانِ شان ہيں، جس كے تابع پورى كائنات ہے، كيونكہ اس كائنات ميں انسان كوئى فضول چيز نہيں ہے، اور نہ ہى وه كوئى پتہ ہے كہ ہوا اسے جہاں چاہے لے جائے، بلكہ وه تو تاريخى حادثات اور واقعات كا موجد ہے، اور اسے چاہئے كہ وه زندگى كو چلانے اور اس ميں بہتر تبديلى كيلئے تجديدى عمل كو جارى ركهے-

وہمى اسباب كى تاثير كا يہ عقيده غلط ہے كہ انسان كا (اپنے عمل ميں) كوئى اراده، اختيار  اور آزادى نہيں ہے، يہ انسان كى زندگى ميں تمام اميدوں كے دروازے بند كرنے كا سبب ہے، اور اميد كے بغير انسان اپنى زندگى ميں ترقى كا ايك قدم بهى نہيں اٹها سكتا، جس كا مطلب يہ ہے كہ زندگى رك جاتى  ہے، اور يہ بذات خود فطرت كے منافى ہے-

لہذا الله تعالى نے ہمارے اندر اميد كى جوت جگائى ہے اور ہميں بہتر تبديلى كيلئے قوتِ اعتمادى عطا كى ہے، قرآن كريم ہميں آگاه كرتا ہے، يہ تبديلى وترقى ہم پر آسمان سے ہر گز نہيں گرے گى بلكہ اس كا تعلق ہمارے اندر موجود عزم واراده  سے ہے، ارشاد بارى ہے: "إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم" (بے شك كسى قوم كى حالت الله تعالى نہيں بدلتا جب تك كہ وه خود اسے نہ بدليں) (سورۂ رعد: 11).

جس طرح الله تعالى نے تبديلى كے معاملے كو انسان كے سپردكيا ہے اسى طرح تزكيہ نفس اور اس كے بگاڑ كو بهى انسان كے سپرد كيا ہے، فرمان بارى ہے: "قد أفلح من زكاها (99) وقد خاب من دساها" (جس نے اسے پاك كيا وه كامياب ہوا- اور جس نے اسے خاك ميں ملا ديا وه نا كام ہوا) (سورۂ شمس: 9،10)-

انسان كى زندگى ميں وہمى چيزوں يا غير معقول امور كى كوئى گنجائش نہيں، وه (اپنے تمام اعمال) يہاں تك كہ ايمان وكفر كے مسئلے ميں بهى خود مختار ہے جيسا كہ ارشاد بارى ہے "فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر" (جو چاہے ايمان لائے اور جو چاہے كفر كرے) (سورۂ كہف: 29)-

چنانچہ  كسى كے لئے جائز نہيں كہ وه وہمى اسباب پر اعتماد كرنے كى علت بيان كر كے اپنى ترقى ميں ركاوٹ بنے، جو جرائم يا گناه  اس سے سرزد ہوتے ہيں ان كيلئے مسئلہ تقدير كو جواز بنائے، كہ يہ امور تو ازل سے ہى انسان كا مقدر ہے- الله تعالى نے ازل سے انسان كے مقدر ميں جو لكها ہے وه (اس كے علم كى بناپر) ايك ريكارڈ ہے، كہ ہم ميں سے ہر فرد كے ارادے ، آزادى اور اختيار سے (عمل) سرزد ہوگا، جس ميں كوئى جبر وزبردستى نہيں ہے، لہذا انسان اپنے ہر چھوٹے بڑے عمل كا مكمل دمہ دار خود ہے، الله تعالى فرماتا ہے: "فمن يعمل مثقال ذرة خيرًا يره (7) ومن يعمل مثقال ذرة شرًا يره" (پس جس نے ذره برابر نيكى كى ہوگى وه اسے ديكھ لے گل (7) اور جس نے ذره برابر برائى كى ہوگى وه اسے ديكھ لے گا) (سورۂ زلزلہ: 7، 8)-

اس كا مفہوم يہ ہوا كہ الله تعالى نے جب انسان كو پيدا فرمايا تو اسے آزاد ارادے كا مالك بنايا ، اس كے اعمال كى مكمل ذمہ دارى بهى اسى پر ہے، اگر ايسى بات ہے، اور وه تو انسان كے لئے كسى صورت ميں بهى  يہ درست نہيں كہ وه خرافات اور اوہام  (كى بنياد) پر اپنى زندگى  بنائے اور نسل در نسل اسے منتقل كرے، يا اپنے انجام كو علمِ غيب سے جوڑے، جسے الله كے سوا كوئى نہيں جانتا، اور اس كے  بارے ميں اپنے رسولوں كے سوا كسى كو مطلع نہيں كرتا، الله تعالى كا فرمان ہے: "عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدًا (26) إلا من ارتضى من رسول" (وه غيب كا جاننے والا ہے اور اپنے غيب پر كسى كو مطلع نہيں كرتا (27) سوائے اس پيغمبر كے جسے وه پسند كرلے) (سورۂ جن: 26، 27)-

انسان ميں تبديلى كے ارادے كا تعلق زندگى بسر كرنے كے اراده  سے وابستہ ہے، اور زندگى اميد پر قائم ہے، انسان اپنى عقل وفكر كے بل بوتے پر خود اپنى زندگى كى تعمير وتشكيل كر سكتا ہے بشرطيكہ وه چيزوں (كے استعمال) اور لوگوں سے معاملات ميں صحيح انداز اختيار كرے-

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.