اسلام كى امتيازى خصوصيات(قسط نمبر3)- دين ِفطرت

  • | هفته, 25 مئی, 2019
اسلام كى امتيازى خصوصيات(قسط نمبر3)- دين ِفطرت

     اسلام كے مختلف خصائص وامتيازات ميں سے  ايك نماياں خصوصيت  اس كا فطرت كے مطابق ہونا ہے،يعنى  يہ مذہب انسان كى خلقت  كے مطابق ہے، فطرت كے معنى پيدا كرنے، شروع كرنے اورپھاڑنے كے ہيں ، جس ميں خلقت ، طبعى حالت، پيدائيشى خصوصيات، دين ، سنت، عادات، اور طريقہ كے مفاہيم شامل ہيں۔

فطرت سے مراد اسلام ہے، حضور ؐ نے فرمايا:" ہربچہ فطرت پر پيدا ہوتا ہے، پھر  اسكے ماں باپ اس كو يہودى  ،نصرانى يا مجوسى بنا ديتے ہيں"۔ اس حديث ميں فطرت كو يہوديت، نصرانيت، اور مجوسيت كے مقابلے ميں استعمال كيا گيا ہے، اس سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ فطرت بمعنى اسلام ہے۔  حضور پاك ؐ نے ايك دعاء سكھائى ہے، اس ميں بھى فطرت كى اضافت  اسلام كى طرف كى گئى ہے:" ہم نے صبح كى فطرت  اسلام پر كى "۔

اسلامى تعليمات كے مختلف پہلو ہيں، ان ميں عقائد، عبادات، اخلاق اور   معاملات خاص طور  سے قابل ذكر ہيں:

(1)عقيدهء توحيد اور فطرت

اللہ كے بارے ميں  انسانوں  كا رويہ اور  مذہب كى تعليمات  مختلف ہيں، بعض مذاہب ميں شرك كاعقيده  درآيا ہے ، جيسے يہوديت، نصرانيت، اور ہندومت وغيره، ليكن اگر انسانى فطرت اور  اس كى نفسيات كى روشنى ميں غور  كيا جائے تو عقيدهء  توحيد ہى كو درست ماننا پڑے گا، كيوں كہ فطرت  اسى كا تقاضا كرتى ہے ۔

(2) عقيدهء آخرت اور فطرت

     اسلام كا دوسرا بنيادى عقيده آخرت ہے اس كے معنى يہ ہيں كہ دنيا كى  اس عارضى زندگى كے بعد ايك ابدى زندگى ہے جس ميں  تمام انسانوں كو ان كے اچھے يا برے اعمال كا بدلہ ملے گا، دنيا امتحان گاہ اور آخرت  دار الجزاء ہے، يہ عقيده مختلف پہلوؤ ں سے فطرت كى ترجمانى  كرتا ہے۔

اسلام ميں فطرت كى رعايت كا ايك بڑا مظہر اس كا وه  حكم بھى ہے جس كے مطابق كسى شخص كوبےزور دين ميں داخل كرنے سے روكا گيا ہے، اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

" لا إكرا في الدين قد تبين الرشد من الغي"[البقرة:256]

ترجمة( دين كے معاملے ميں  كوئى  زور زبردستى  نہيں،ہدايت كو ضلالت سے الگ چھانٹ كر ركھ ديا گيا ہے)۔

اسلام  كا يہ حكم سياق ميں ہے كہ كوئى عقيده يا مذہب اختيار كرنا انسان كا ذاتى عمل ہے اور اس كويہ اختيار حاصل ہے كہ وہ جو عقيده اور دين چاہے اختيار كرے، اگر كسى شخص كو كوئى مخصوص دين وعقيده ماننے پر مجبور كيا جائے گا تو يہ اس كى آزادى كے خلاف ہوگا جس كا مطالبہ اس كى فطرت كرتى ہے، اسلام نے  انسان كى اس طلب كو  پورى طرح باقى ركھا ہے، اگر چہ وه يہ بھى كہتا  ہے كہ سچا دين صرف  اسلام ہے۔

اسلام  كى  امتيازى  خصوصيت  ہے كہ اس نے عبادت كو خدا ئے واحد كے ليے خاص كرديا اور ہر طرح  كے شرك سے اسے پاك كيا۔

اسلام كے دين فطرت ہونے كا ايك مظہر صفائى ستھرائى  كے بارے ميں  اس كى تعليمات ہيں، انسان فطرى طور پر گندگى   اور ميل  كچيل  كوناپسند اور صفائى  ستھرائى  كو پسند كرتا ہے،صفائى ستھرائى كے مختلف پہلو اور مواقع ہيں، جيسے گھروں ، راستوں ، كپڑوں  اور  جسموں كو پاك وصاف ركھنا، اسى طرح اعضائے ظاہر ى كو دھونا۔انسانى جسم  ميں بعض چيزيں  ايسى ہيں جو صفائى  ستھرائى كا تقاضا كرتى ہيں مثال كے طور پر دانت صاف كرنا،ناخن تراشنا، ناك صاف كرنا وغيره، اسلام ميں  ان امور كو خصال فطرت  ميں شمار كيا گيا، اور صفائى ستھرائى كو نصف ايمان قرار ديا گيا ہے، حضور پاك كا فرمان ہے:"اللہ تعالى پاك ہے اور پاكى كو پسند كرتا ہے"۔

(3) عدل وانصاف  او رفطرت

انسان فطرى طور پر اچھائى ،خير ، صلاح  اور عدل وانصاف كو پسند  اور برائى ، شر ،فساد اور ظلم وزيادتى كو ناپسند كرتا ہے، اس كى وجہ  يہ ہے كہ وہ ايك حساس ، باشعور، امن پسند اوردنيا كو آباد وتعمير كرنے والى مخلوق ہے، جب كہ شر ، فساد ، ظلم اور زيادتى  سے اس كے شعور ، امن  وامان اور تعمير دنيا كے رجحان كو نقصانلاحق  ہوتا ہے ، يہى وجہ  ہےكہ اسلام نے لوگوں كو خير ، صلاح اور عدل وانصاف كا حكم ديا ہے، اور  شر، فساد، ظلم اور  زيادتى  سے روكا ہے، ارشاد ہے:

" إن الله يامر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون"[النحل:90]

 ترجمة ( اللہ  عدل واحسان اور صلہ رحمى كا حكم ديتا ہے اور بدى وبے حيائى اور ظلم وزيادتى سے منع كرتا ہے ، وه تمہيں  نصيحت كرتا ہے ، تاكہ  تم سبق لو)۔

عدل وانصاف  كے دائرے مختلف ہيں، ملك ، شہر، معاشره، خاندان اور فرد كى نجى زندگى ،  ہر دائرے  ميں  اسلام نے عدل وانصاف  كا حكم ديا ہے حتى كہ وه كسى فرد كو اجازت نہيں ديتا ہے كہ وہ كسى دوسرے فرد سے محض قريبى تعلق ہونے كى وجہ سے عدل وانصاف كے تقاضے كو  پورا كرنے سے باز رہے، عدل وانصاف كے قيام كے لئے   ضرورى ہے كہ ظلم كا ازالہ ہو، اسى  ليے اسلام ميں ظلم  كى بڑى مذمت كى  گئى ہے اور  اس  سے دور  رہنے كى تاكيد كى گئى ہے اس كے بارے ميں اسلام  كى تعليمات  صرف اس حد تك  محدود نہيں ہيں كہ  اس نے دوسروں پر ظلم  كرنے   سے روكا ہے ، بلكہ وہ اپنے  ماننے والوں كو  اس كا بھى مكلف كرتا ہے كہ اگر دنيا  كے كسى حصے ميں  كسى انسانى  گروه پر ظلم وزيادتى  ہو رہى ہو  اور وہ  از خود  ظلم  كو دور كرنےكى قدرت نہ  ركھتے ہوں تو ان كى مدد كى جائے اوران پر ہونے ظلم  كو روكنے كى كوششكى جائے، يہ اسلام  كى ايك ايسى اعلى تعليم ہے كہ دوسرے مذاہب ونظريات  ميں  اس كى مثال نہيں  ملتى۔

    خلاصہ يہ كہ اسلام كى جملہ تعليمات  انسانى فطرت كى ترجمانى كرتى  ہيں  انسانوں  كى بھلائى  انھيں اختيار كرنے ميں  ہے، جو لوگ محض ہٹ دھرمى اور ضد كى بنياد پر ان سے اعراض كرتے ہيں وه حقيقت ميں اپنى فطرت سے جنگ كرتے ہيں۔

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.