تمام جہانوں كے لئے رحمت

  • | پير, 27 مئی, 2019
تمام جہانوں كے لئے رحمت

     "رحمت "... اس مختصر سے لفظ كے اندر بہت سے معانى پوشيده  ہيں ، اسى سے الله رب العزت كے دو نام مشتق ہيں، اور جو لفظ الجلالہ كے ساتھ ايك ايسى مبارك آيت ميں پروئے گئے ہيں  جس كو ہر مسلمان ہر روز بار بار دوہراتا ہے . الله تعالى كى يہ عظيم صفت اس كے پيارے نبى سے بهى منسلك ہے ، جيسا كہ قرآن كريم ميں الله رب العز ت كا اپنے نبى سے متعلق ارشاد ہے (اور ہم نے آپ كو تمام جہانوں كے لئے رحمت بنا كر ہى بهيجا ہے) (سورۂ انبياء: 107). رحمت كسى خاص موقع سے مربوط عارضى جذبہ يا وقتى شفقت كا نام نہيں ہے بلكہ يہ نفسِ انسانى كے اندر مضبوطى سے موجود ہے.

قرآن كريم اور حديث شريف ميں  سينكڑوں بار رحمت كے مفہوم كا تكرار ہوا ہے ،  ہر وه كام جسے مسلمان شروع كرتا ہے عام طور پر وه الله كے اس قول سے شروع كرتا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم   " شروع كرتا ہوں الله كے پاك  نام سے جو بڑا مہربان اور رحمت والا ہے".

ليكن بڑے افسوس كى بات ہے كہ ہم اپنے روز مره كے معاملات ميں اس عظيم قيمت كو كهوتے جارہے ہيں، چنانچہ  لوگوں كے روزانہ كے بہت سے تعلقات اور زندگى كے تعاملات  ميں رحمت وشفقت كى جگہ سختى اور سنگدلى نے لے لى ہے اور اس كى بہت سى مثاليں موجود ہيں، باپ اپنے بچوں اور بچے اپنے باپ   كے ساتھ سختى برتتے ہيں اور ان كى طرف  سے پيش كرده ہر چيز كو ناشكرى كى نگاه سے ديكهنے لگے ہيں،شوہر اپنى  بيوى   اور بيوى اپنے شوہر كے حق ميں سخت گير ہے، سردار اپنے ما تحتوں پر سخت ہے،  سركارى ملازم شہريوں كے ساتھ سختى سے پيش آتا ہے، اس كے علاوه معصوموں پر نا حق ظلم كے اقدام، ان كے حقوق كو پا مال كرنے اور بغير گناه ان كا خون بہانے يا معمولى اسباب كى وجہ سے جانوں كو ہلاك كرنے كے واقعات بهى سامنے آتے ہيں-

يہ عجيب وغريب چيزيں ہمارے اس سماج اور سوسائٹى ميں ظاہر ہو رہى ہيں، جو ايك طويل عرصہ تك اعتدال كى صفت سے متصف رہا ہے، جس كے دينى تقاليد شروع سے ہى عفو ودرگزر، محبت اور رحمت وشفقت پر مشتمل ہيں- جب ايك انسان دوسرے انسان كے ساتھ اس طرح سختى كا معاملہ كرے گا تو جانوروں كے ساتھ اس سے اچها معاملہ كسى صورت ميں نہيں ہو سكتا پس يہ سختى بعض بچوں كے پاس بهى پائى جاتى ہے كہ وه بعض جانوروں اور پرندوں كے ساتھ بڑے ہى غلط طريقہ سے كهيلتے ہيں اور ان كو اس سے منع كرنے والا بهى كوئى نہيں ہوتا اور بہت سارے لوگ اپنے ان جانوروں كے ساتھ بهى سختى كا معاملہ كرتے ہيں جن كے ذريعہ وه اپنا سازوسامان وغيره اٹهاتے ہيں-

رحمت انسانى اخلاق كے اعلى درجہ كى نمائندگى كرتا ہے، ساتھ ہى يہ سلوك ايك ہى وقت ميں عفو ودر گزر اور تمام مخلوقات كى محبت سے مربوط ہے، جو اس اخلاق سے يقينى طور پر متصف ہوگا وه اپنے فكر يا روش ميں ظالم يا تعصب پرست يا حسد كرنے والا يا شدت پسند نہيں ہو سكتا- اس سے ہم سمجھ سكتے ہيں كہ اسلام نے دوسرى صفات كے مقابلہ  ميں صرف  اسى  صفت پرہى توجہ كيوں دى ہے، وجہ يہ ہے كہ اس عالمِ وجود ميں پائے جانے والے خير وحق كى تمام قدروں پر يہ صفت غالب ہے، اسى وجہ سے آپ ﷑ نے مختلف حديثوں ميں اس كى تاكيد فرمائى ہے، ايك حديث ميں ہے: "تم زمين والوں پر رحم كرو، آسمان والا تم پر رحم كرے گا". دوسرى جگہ حديث ميں ہے: "رحم كرنےوالوں پر الله رحم كرتا ہے". نبى كريم نے فرمايا : ان نا  زبان چوپائے كے سلسلہ ميں الله سے ڈرو،كيونكہ وه اپنے دل كى بات ظاہر نہيں كرپاتے اور ناہى اپنے شعور كى تعبير كر سكتے ہيں." اس سے متعلق آپ ﷑ بعض مثالوں كى طرف اشاره فرماتے ہيں كہ: "ايك شخص نے ايك كتے كو پياس كى وجہ سےہانپتے ہوئے زبان نكالتے ديكها تو اس نے كنوئيں ميں اتر كر اپنے چمڑے كے موزے كو پانى سے بهرا  اور كتے كو پلاديا، پس الله نے اس كے اس عمل كو قبول كيا اور اس كى مغفرت فرمادى". اور اسى كے ساتھ ساتھ ہميں يہ بهى بتاتے ہيں كہ: "ايك عورت جہنم ميں ايك بلى كى وجہ سے  داخل ہوئى، اس عورت نے اس بلى كو قيد كر ركها تها نہ اس كو كهانا كهلاتى تهى اور نہ اس كو چهوڑتى تهى كہ وه خود زمين كے كيڑے مكوڑے كا شكار كر كےكهائے يہاں تك كہ وه بلى مرگئى".

ہمارا دينى اور اخلاقى ورثہ ہم پر لازم كرتاہے كہ ہم اپنى روز مره كے بہت سے سلوكيات پر نظر ثانى كريں تاكہ ہم ان سلوكيات كى وجہ سے ايسے قدروں كے معيار پر پہنچيں جو ہمارے معاشره كى ترقى، امن وامان، سلام وآشتى اور استقرار كا ضامن ہو، تاكہ سب لوگ اچهى زندگى گزاريں، اور آپسى رحمت وشفقت، عفو ودرگزر، الفت ومحبت اور ملك اور اس كے باشندوں كے لئے خير وصلاح ميں تعاون كے ما حول ميں اپنى زندگى سے نيك بخت ہوں-

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.