اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر 5)... مصالح اور حكمتوں پر مبنى دين

  • | پير, 3 جون, 2019
اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر 5)... مصالح اور حكمتوں پر مبنى دين

     اسلام كى متعدد خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت يہ ہے كہ  يہ دين مصلحتوں  اور  حكمتوں پر مبنى ہے،اللہ تعالى نے جو احكام  ديے ہيں ان ميں انسانوں كےليے بے پناه فوائد پوشيده ہيں، اگر  ان احكام پر عمل نہ كيا جائے اور دين كو ترك كر ديا جائے تو ان فوائد سے محرومى كے ساتھ طرح  طرح كے نقصانات لاحق ہوتے ہيں، اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

" وما جعل عليكم في الدين من حرج"[الحج:78]

ترجمہ:(( اور اللہ نے تمہارے ليے دين ميں  كوئى حرج نہيں بنايا ہے))۔

مصلحت كے معنى   درست  اور ٹھيك ہونے كے ہيں،  اس كى ضد فساد اور مفسده ہے،جس كے معنى بگاڑ اور خرابى كے آتے ہيں، اس كے اصطلاحى معنى ہيں احكام شرع كا مصالح كے مطابق  ہونا،اس ميں منفعت اور بهلائى كى طرف تگ ودو كرنا   يا اس تك  پہنچنا  اور نقصانات كو دور كرنے كے دونوں  پہلو شامل ہوتے ہيں۔

منفعت كا حصول اور مضرت  يا نقصانات كا دفع كرنا  يعنى ان كو اپنے سے دور كرنا ہر مخلوق كى بنيادى ضروريات ميں سے ہے اور خلق  كى اصلاح ان كے مقاصد پورے كيے جانے پر مبنى ہے ، شريعت كا مقصود پانچ امور ہيں:دين كى حفاظت ، نفس كى حفاظت، عقل كى حفاظت، مال كى حفاظت اور نسل كى حفاظت ۔ہر وہ حكم يا طريقہ جو ان پانچ اصولوں كا ضامن ہوگا، مصلحت اور اصلاح كہلائے گا اور  جس سے يہ اصول فوت ہوتے ہيں وہ طريقہ مفسده كہلائے گا اور مفسده كو دفع كرنا واجب ولازم ہے۔

مصلحت كى بنيادى طور پر دو قسميں ہيں:اخروى اور دنياوى ،اخروى مصلحت سے مراد موت كے بعد آخرت ميں اللہ كى رضا مندى، جنت ميں داخلہ اور جہنم سے نجات ہے، اور دنياوى مصلحت كا تعلق دنيا  كى زندگى ميں منفعت كے حصول يا مضرت كو دور كرنا ہے ۔

وه مصلحت جس كى رعايت كے بغير انسان كى صحت مندانہ زندگى كا تصور ممكن نہ ہو، اس كا معنى "مصلحت ضروريہ" ہے،مصلحت ضروريہ كا دائره پانچ چيزوں پر محيط ہے:

(1) دين كى حفاظت

اسلام كے نزديك انسان كى زندگى دين وعقيده كے بغير بے معنى ہے،وه اس بات  كو ہر گز پسند نہيں كرتا  كہ آدمى ايمان سے عارى  زندگى  گزارے، ايسى صورت ميں وه اس بات كوكيسے پسند كر سكتا ہےكہ وہ دوسرے كے دين  وعقيده  ميں خلل ڈالنے كا باعث ہو، يا خود  اپنے ايمان سے پھرجائے،شريعت كى نگاه ميں يہ قابل سزا جرم ہے، دوسرے معنى ميں اسلام معاشره كو مذہبى خلفشار سے بچانا چاہتا ہے،ايسا نہ ہو كہ آدمى خود گم راه ہو اور دوسروں كى گم راہى كا بھى سبب بنے۔

(2)جان كى حفاظت

كرهء ارضى كى سارى  آبادى ، يہاں كى بہاريں اور سرگرمياں انسانوں كے دم سے ہيں اور  ان كى زندگى كى بقا كا انحصار  اس بات پر ہے كہ وه ايك دوسرے كى جان كےدرپے نہ ہوں،ورنہ يہ دنيا  ويران  ہوجائے گى اور يہاں كى سارى  رونق جاتى  رہے گى، اس ليے اسلام ميں  ايك آدمى كے قتل كو پورى  انسانيت كے قتل كے مترادف قرار ديا گيا ہے، اس كے معنى يہ  ہيں كہ جو شخص  ناحق كسى كى جان ليتا ہے وه صرف ايك ہى فرد  پر ظلم نہيں كرتا ، بلكہ اس كا عمل يہ بھى ظاہر كرتا ہے كہ اس كا دل حيات ِانسانى كے احترام سے خالى ہے، لہذا وه ايسے ہى ہے  جيسے اس نے پورى انسانيت كا قتل كيا ہو، ارشاد بارى ہے:

" من قتل نفساً بغير نفس أو  فساد في الأرض فكأنما قتل الناس  جميعاً ومن أحياها فكأنما أحيا الناس جميعاً"[المائدة:32]

ترجمة:"جس  كسى نے سوا  اس حالت كے  كہ قصاص لينا ہو يا ملك ميں فساد پھيلانے(لوٹ مار كرنے) والوں كو سزا دينى ہو، كسى جان كو قتل   كر ڈالا گويا اس نے تمام انسانوں كا خون كيا  اور جس نے  كسى زندگى بچائى ہو تو گويا اس نے تمام انسانوں كو زندگى  دى۔

انسانى جان  كى قدر وقيمت كا تقاضا ہےكہ آدمى خود بھى اپنى جان كو ختم كردينے كے درپے نہ ہو، اس ليے اسلام ميں خود كشى حرام ہے، ارشاد ربانى ہے:

"ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيماً"[النساء:29]

ترجمة:(اور اپنے آپ كو قتل نہ كرو، يقين مانوكہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے).

حفاظت جان  كے مد نظر ہى شريعت ميں قصاص كے احكام ديے گئے ہيں، جس ميں نہ صرف جان كے بدلے جان كى  دفعہ بيان كى گئى ہے، بلكہ معمولى چوٹ اور زخم ،حتى كہ تھپڑ پر بھى قصاص كو مشروع كيا گيا ہے، الله تعالى كا ارشاد  ہے:

"وكتبنا عليهم فيها أن النفس بالنفس والعين بالعين والأنف والأذن بالأذن  والسن بالسن والجروح قصاص"[المائدة:45].

ترجمة:(اور ہم نے يہوديوں كے ذمہ  تورات ميں يہ بات مقرر كر دى تھى كہ جان كے بدلے جان اور آنكھ كے بدلے آنكھ اور ناك كے بدلے  ناك  اور كان كے بدلے كان اور دانت كے بدلے دانت، اور زخموں كا بھى برابر كا بدلہ ہے).

ساتھ ہى  قصاص كو انسانوں كے ليے حيات بخش قرار ديا گيا ہے:

"ولكم في القصاص حياة يا أولي الألباب لعلكم تتقون"[البقرة: 179]

ترجمة( عقل وخرد ركھنے والو، تمہارے ليےقصاص زندگى ہے،اميد ہے كہ تم اس قانون كى خلاف ورزى سے پرہيز كرو گے).

(3)مال كى حفاظت

مال زندگىكى بنيادى ضروريات ميں سے ہے، اس كے بغير انسان كو خوراك ،لباس اور مكان كے سلسلے ميں كوئى چاره نہيں، مال نہ ہو تو آدمى غربت وافلاس كا شكار ہوجائے، اس ليے شريعت نے مال كمانے ، ركھنے اور خرچ كرنے كے ساتھ اس كو چورى ، غصب اور ڈاكہ زنى سے محفوظ ركھنے كے احكام ديے ہيں،اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

"ياأيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم"[النساء:29].

ترجمة:(( اے ايمان والو،ايك دوسرے كا مالناجائز طريقے سے نہ كھاؤ، مگر يہ كہ كوئى مال باہمى رضا مندى سے تجارت كے ذريعے حاصل ہوجائے)).

(4)عقل كى حفاظت

عقل كى حفاظتسے مراد يہ ہے كہ اس كو ايسى چيزوں سے بچايا جائے جو انسان كے لئے كسى بهى قسم كے نقصان كا باعث ہوں، اسے آفتوں ميں مبتلا كر دينے والىہوں اوران كى وجہ سے وه اذيت ميں مبتلا ہو، چناچہ شريعت ميں شراباور دوسرى تمام نشہ آور اشياء حرام ہيں اور ان كے استعمال پر سزا نافذ كى جاتى ہے۔

(5) نسل كى حفاظت

نسل كى حفاظتدر حقيقتنوع انسانى كى حفاظت ہے، شريعت كى نگاه ميں ضرورى ہےكہ ہر بچہ اپنے والدين كى نگرانى ميں تربيت پائے اور وہى ان كا وارث ہو،يہ مقاصد چونكہ صرف ازدواجى زندگى سے حاصل ہوتے ہيں، اس ليےاسلا م ميں نكاح كو مشروع قرار ديا گيا ہے، اور ديگر ہر طرح كے جنسى تعلقا ت كو قرار حرام كيا گيا ہے، اور ان پر حد مقرر كى گئى ہے۔

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.