اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر 4).. معتدل ومتوازن دين

  • | پير, 3 جون, 2019
اسلام كى امتيازى خصوصيات (قسط نمبر 4).. معتدل ومتوازن دين

     اعتدال كے معنى ہيں دومقابل ومتضاد پہلوؤں كے درميان توازن قائم كرنا اس طرح كہ ان دونوں  پہلوؤں ميں سے كسى ايك پر بے جا طور پر زورنہ دے  ديا گيا  ہو اور دوسرا پہلو نظر انداز نہ ہو گيا ہو بلكہ دونوں كے درميان برابر كا معاملہ ہو،اعتدال ميں عدل بنيادى عنصر ہے يعنى جس پہلو كا جو حق ہے اس كا لحاظ ركھا جائے اور ہر دوپہلوؤں كے ساتھ انصاف كيا جائے۔

دين اسلام افراط وتفريط كے درميان اعتدال وتوازن كا نام ہے اور يہ اعتدال وتوازن دين كے تمام احكام اور تعليمات ميں نمايا ں ہے،عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات اور عام آداب ِ زندگى نيز   ہرچيز ميں  اعتدال وتوازن كا حكم ديا گيا  ہے، جو اسلام كى ايك عظيم خصوصيت ہے، دنيا كے ديگر مذاہب واديان كى تعليمات ميں اعتدال وتوازن مفقود ہے، ليكن  اسلام كے مختلف پہلوؤں  ميں اعتدال  وتوازن  موجود ہے  .

(1) كائنات اعتدال پر قائم ہے:

كائنات  اور اس كے نظام پر غور كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ اول سے آخر تك اس ميں اعتدال وتوازن قائم ہے ، اگر اس ميں ذره  برابر بھى خلل واقع ہوجائے تو يہ كائنات تباه  وبرباد ہوجائے گى مثال كے طور پر  زمين سورج سے  جس فاصلے پر واقع ہے اگر اس ميں تھوڑى بھى كمى ہوجائے تو فضا ميں حدت  كى وجہ سے زندگى كے آثار ختم ہوجائيں گے، اس كے برعكس اگر زمين سورج سے زياده دورى پر واقع ہو تو يہاں كى سارى چيزيں منجمد ہو  كر ره جائيں گى۔

(2) انسان كا وجود اعتدال وتوازن پر مبنى ہے:

كرهء ارض پر زندگى كا وجود كائنات كے معتدل ومتوازن ہونے كا سب سے بڑا مظہر ہے، دوسرى طرف خود زندگى اپنے داخلى اعتدال وتوازن كى كہانى سناتى ہے، مثال كے طور پر خود انسان كا وجود اعتدال وتوازن پر مبنى ہے جيسے اعضا ء وجوارح كى ساخت ہو يا انسانى جسم كے زيادتى ہو جائے تو ايك نقص اور مرض كى صورت ميں اس كا اظہار ہوتا ہے  انسانى جسم كو ايك مناسب درجہ ميں حرارت كى ضرورت ہوتى ہے ، اگر وہ حرارت  نہ ملے يا ضرورت سے زياده ملے تو دونوں صورتوں ميں  اس كا جسم متاثر ہوتا ہے۔

اللہ تعالى نے كائنات اور اس كى ہر چيز ميں تخليقى وتكوينى طور پر جيسا اعتدال قائم كر ركھا ہے وه ويسا ہى انسان كے اختيارى اعمال  ميں بھى مطلوب ہے چاہے وه عقائد ہوں يا دين  كے ديگر احكام وتعليمات ہر جگہ  اعتدال كا حكم ديا گيا ہے، اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

" وأقيموا الوزن بالقسط ولا تخسروا الميزان"[الرحمن:9]

ترجمة:(( انصاف كے ساتھ ٹھيك ٹھيك تو لو اور تر ازو ميں ڈنڈى  نہ مارو))۔

اللہ تعالى  نے امت اسلاميہ كو دنيا كى ديگر اقوام وملل كے درميان سب سے افضل اور عدل پر مبنى بنايا كيونكہ اس كى شريعت سب سے اكمل ،منہج دين سب سے زياده مستحكم اور  اس كے احكام سب سے زياده واضح ہيں،ارشاد بارى ہے:

" وكذلك جعلناكم أمة وسطاً  لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيداً"[البقرة:143]

((اور اس طرح ہم نے تم كو مسلمان  كو  ايك  امت وسط  بنايا تاكہ  تم دنيا كے لوگوں پر گواه  رہو اور  رسول تم پر گواه ہو))۔

آيت ميں  وسط سے مراد عدل ہے، اس كے معنى يہ ہيں كہ امت مسلمہ قيامت كے دن  سابق امتوں  اور ان كے پيغمروں كے درميان   پيدا  ہونے والى نزاع كو عدل وانصاف كى گواہى دے كر ختم كرے گى اس ليے دنيا ميں اسے عدل وانصاف پر مبنى دين قرار ديا گيا ہے۔

(3) حقوق وفرائض ميں  اعتدال

اسلام  نے بندوں كے درميان حقوق اور فرائض ميں بھى توازن قائم كيا ہے،  اس كے نزديك ہر شخص  كى نجى آزادى كى انتہائى اہميت ہے مگر ايسا نہيں ہے كہ   اس كو  مطلق آزادى حاصل   ہے اور  اس پر كوئى ذمے دارى عائد نہيں  ہوتى ، بلكہ اسلام نے اس پر ذمے دارياں بھى عائد كى ہيں  گويا حقوق وفرائض كا  متوازن  نظام ہے جس كے تحت  فرد  اپنے حقوق سے متمتع  ہوتا  ہے، يعنى انهيں حاصل كرتا ہے اور فرائض ادا كرتا ہے ، ايك حديث ميں وارد ہے:

"آگاہ ہو جاؤ تم ميں ہر ايك نگراں ہے اور ہر ايك جواب ده ہے"۔

اسلامى تعليمات كا مطالعہ  كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام نے نہ صرف حقوق وفرائض  كا متوازن تصور  ديا ہے بلكہ متعين انداز ميں طے  كر كے وہ بتا تا ہے كہ كس كى  كتنى ذمے دارياں ہيں  اور اسے كتنے حقوق  حاصل  ہيں، مثال كے طور پر زوجين كے متعلق سے ارشاد ہے:

" ولهن مثل الذي عليهن وللرجال عليهن درجة"[البقرة:228]

ترجمہ  (( عورتوں كے ليے  معروف طريقے پر ويسے ہى حقوق ہيں جيسے مردوں كے حقوق ان پر ہيں، البتہ مردوں كو ان پر ايك درجہ حاصل ہے))۔

 

(4) انفراديت واجتماعيت كے درميان اعتدال

اعتدال وتوازن كے قيام كا ايك محل انفراديت واجتماعيت  كے درميان ہے، اسلام نے ان دونوں كے بيچ ميں اعتدال  قائم كيا  ہے، اس نے ايك  طرف فرد كے حقوق ميں دست درازى كى اجازت نہيں دى ، اسى طرح فرد كو اجتماعيت سے جڑے رہنے پر مجبور كيا ، فرد كے حقوق كے تعلق سے جان ومال اور عزت وآبرو كے تحفظ كى ضمانت دى ، اللہ تعالى  كا ارشاد ہے:

" من قتل نفسا بغير نفس أوفساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعاً"[المائدة:32]

((جس نے كسى انسان كو خون كے بدلے يا زمين ميں فساد پھيلانے كے سوا كسى  اور  وجہ سے قتل كيا  ، اس نے گويا تمام انسانوں كوقتل كرديا اور جس نے كسى  كو زندگى بخشى اس نے گويا تمام انسانوں كو زندگى بخش دى"۔

ارشاد نبوى ؐ ہے:

" بے شك تمام خون، تمہارے مال اور تمہارى عزت وآبرو ايك دوسرے پر حرام ہے، جس طرح آج كا دن ، يہ مہينہ اور يہ شہر حرام  ہے"۔

اعتدال اور توازن كى ان تعليمات كے ساتھ اسلام نے انسان كےعام رويوں اور  روز مره  معمولات ميں بھى توازن  واعتدال كى تلقين  كى ہے، مثال كے طور پر گفتار وكردار يعنى انسان كى چال ڈھال بھى معتدل ومتوازن ہو ، اس غرور اور  گھمنڈ كا كوئى اثر  نہ ہو ، اس طرح اس ميں انتہائى كمزورى كا اظہار بھى نہ ہو، بلكہ معتدل ومتوازن  ہو، ارشاد ہے:

" وأقصد في مشيك وأغضض من صوتك إن أنكر الاصوات لصوت الحمير"[لقمان:19]

ترجمہ (( اپنى چال ميں ميانہ روى اختيار كر اور  اپنى آواز پست ركھ، سب آوازوں سے زياده برى آواز گدھوں كى آواز ہے))۔

اسلام ميں اعتدال وتوازن كى اہميت  كا اندازه اس بات  سے لگاياجاسكتا ہے كہ اس نے اللہ تعالى كى عبادت ميں بھى اعتدال قائم كرنے كاحكم ديا ہے، يعنى دين ميں غلو اور  افراط وتفريط كى اجازت نہيں  ہے:

"نرمى اختيار كرو اور لوگوں دين سے قريب كرو اور ياد ركھو كہ كوئى شخص محض اپنے اعمال كى بنياد پر جنت ميں نہيں جائے گا(جب تك اللہ كا فضل نہ ہو) اعمال ميں مداومت بہتر ہے اگر چہ وه مقدار ميں كم ہو))۔

يہى وجہ ہے  كہ  شريعت  ميں ترك دنيا   كى تعليم نہيں دى گئى ہے اور نہ دنيا كو انسان كى منزل قرار ديا گيا ہے، لہذا  اسے يہاں اعتدال كى ضرورت ہے، ارشاد ہے:

"وابتغ فيما آتاك اللہ الدار الآخرة ولا تنسى نصيبك من الدنيا"[القصص:77]

((جو مال  اللہ تعالى نے تجھے ديا ہے ، اس سے آخرت كا گھر  بنانے كى فكر كر اور دنيا ميں  سے بھى اپنا حصہ فراموش نہ كر))۔

حديث ميں وارد ہے كہ بہترين دعا  وہ ہے جس ميں فلاح آخرت كے ساتھ دنيا كى بھلائى كى بھى تمنا كى گئى ہو ، ارشاد ہے:

"اے ہمارے رب ہ ہم دنيا ميں بھلائى  دے اور آخرت ميں بھى اور ہميں جہنم كى آگ سے بچا"۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.