اسلام انسانى حقوق كا پاسبان

  • | پير, 24 جون, 2019
اسلام انسانى حقوق كا پاسبان

     اس  دنيا ميں  پيدا  ہونے والا ہر انسان كچھ حقوق لے كر پيدا  ہوتا  ہے ، ان ميں  بعض حقوق اسے مل پاتے ہيں   اور بعض    سے وه محروم ره جاتا ہے.كسى كو ان حقوق كا  نہ ملنا كوئى معمولى بات نہيں ہے كيونكہ ان ہى سے اس كى ترقى  وابستہ  ہوتى ہے ، يہ اسے رفعت اور بلندى كى طرف لے جاتے ہيں،اور اگر  اس  سے چھن جائيں تو وه  ذلت اور پستى كى زندگى  گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس كى  ترقى كے سارے امكانات ختم ہو جاتے ہيں۔

حقوق انسانى كے سلسلہ ميں اسلام كا تصور بہت ہى واضح اور  اس كا كردار مكمل طور پر  نماياں ہے. اس نے افراد ، جماعت  اور مختلف  سطح كے افراد  اور طبقات كے حقوق كا تعين كيا  اور عملا يہ حقوق  اسے فراہم كيے، جن افراد اور طبقات كے حقوق ضائع ہو رہے تھے ان كى نصرت وحمايت ميں كھڑا ہوا  اور جو لوگ ان حقوق پر دست درازى  كر رہے تھے  ان پر سخت تنقيد كى اور انھيں دنيا  اور آخرت كى وعيد سنائى، معاشره  كو ان كے ساتھ بہتر سلوك كى تعليم وترغيب دى اور ہم دردى وغم گسارى كى فضا  پيدا كى.

قرآن  مجيد  انسانى  حقوق كى ان كوششوں كى اساس ہے اور احاديث ميں  ان كى قولى وعملى  تشريح موجود ہے ، جب قرآن كريم اخلاق كا ذكر كرتا ہے تو ادائے حقوق كو سيرت واخلاق كے لازمى تقاضے اور اعلى كردار كى حيثيت   سے پيش كرتا ہے ، وه  ان  لوگوں   كى  ستائش اور  تعريف كرتا ہے  جو ہر ايك كا حق ادا كرتے ہيں اور انھيں دنيا  اور آخرت  ميں فلاح وكامرانى كى بشارت ديتا ہے،  اور جہاں ظلم وستم اور حقوق كى پامالى ہو ، وه  اس كے سنگين نتائج سے آگاه كرتا  اور  اس  پر جہنم كى وعيد سنا تا ہے۔

اسلام اللہ  كا نازل  كرده دين ہے ،وه دنيا  اور آخرت كى  كاميابى اور فلاح كا ضامن ہے، اس كا ايك پہلو  يہ ہے كہ  وه انسانى حقوق كا پاسبان  اور محافظ  بن كر ہمارے سامنے آتا ہے اور ان حقوق   كى پامالى كو روكنے كى موثر تدابير  اختيار  كرتا ہے ، يہ محض عقيدت ومحبت ياجذباتى تعلق كا  اظہار نہيں ہےبلكہ ايك حقيقت  ہے كہ  اسلام نے جس وسعت ،  گہرائى  اور بصيرت سے اس كے ہر پہلو  پر روشنى ڈالى ہے، اس كى نظير دنيا كے كسى منشور اور كسى دستور ميں نہيں پائى جاتى ۔

اسلامى دستور كى رو سے تمام انسانوں  كے حقوق يكساں ہيں  ،  اللہ تعالى نے انسان  كو اپنى دوسرى  بے شمار  مخلوقات   پر شرف وفضيلت عطا كى ہے،ارشاد بارى ہے(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا)[الاسراء:70]،ترجمہ:اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔

انسان كود وسرى مخلوقات پر شرف وفضيلت  حاصل ہے، اس كے بعض  پہلوؤں كا خود قرآن مجيد  نے صراحتاً  ذكر كيا ہے اور بعض كى  طرف اشارات كيے ہيں۔اللہ تعالى نے انسان كو بہترين خلقت عطا  كى ہے ، وہ اپنى  جسمانى ساخت، شكل وصورت ، قد وقامت ، اعضا وجوارح  كے تناسب اور ظاہرى  ہيئت كے لحاظ سے دنيا كى حسين ترين مخلوق ہے،اللہ تعالى   نے انسان كو اچھے جسم كے ساتھ دل ودماغ بهى عطا كيا ہے. جس كى وجہ سے وه سوچنے ،سمجھنے اور غور وفكر كرنے كى صلاحيت ركھتا  ہے،عقل كے ذريعہ  انسان برے بھلے كے درميان فرق كرتا ہے، اعمال كے حسن اور بدصورتى     اور  غلط وصحيح   كا فيصلہ كرتا ہے،ارشاد بارى ہے:(( وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ))[غافر:64]،ترجمہ:(( اور تمہاری صورتیں بنائیں اور صورتیں بھی خوب بنائیں)) ۔ يہ انسان كى عزت وتكريم  كے بعض پہلو ہيں ، ان كى خلاف ورزى اس عزت و تكريم كے منافى ہے جو اللہ تعالى  نے اسے عطا كى ہے، اسلام ہر اس چيز كا مخالف ہے جو احترامِ آدميت  سے متصادم ہے ۔

انسان اجتماعيت پسند ہے، وه دوسروں كےتعاون ہى  سے اپنى  ضروريات پورى كر سكتا ہے ، سماج كے ايك فرد كى حيثيت  سے وہ كچھ حقوق ركھتا ہے اور اس  پر  كچھ ذمہ دارياں بھى عائد ہوتى ہےہيں، اس كے ان حقوق كو ادا كرنا ہر مہذب سماج كے ليے لازم ہے اور جو ذمہ دارياں سماج كى طرف سے  اس پر عائد  ہوتى ہيں، اس كے ليے ضررورى  ہے كہ وہ  انھيں پورى كرے ، يہ حقوق اور ذمہ دارياں فرد پر بھى عائد ہوتى ہيں، خاندان ، سماج اور قبيلہ كا بھى اس ميں حصہ ہے اور رياست كو بھى اس ميں اپنا كردار ادا كرنا لازمى ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

         

Print
Categories: مضامين
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.