انسانيت كے نام ايك دستاويز

  • | هفته, 29 جون, 2019
انسانيت كے نام ايك دستاويز

     "انسانى بهائى چاره (اخوت) كى دستاويز" كہہ ديں يا "انسانيت كى  دستاويز"، شيخ الازہر اور وٹيكن كے پوپ نے چند مہينوں پہلے  فرورى ميں ايك عالمى اور تاريخى دستاويز پر دستخط كى، جس كا مقصد دنيا كے  تمام لوگوں كو انسانيت كے جهنڈے تلے حمع كرنا تها، اور سب كو يہ پيغام پہنچانا تها كہ كسى بهى مذہب كا بنيادى مقصد امن وسلامتى اور الفت ومحبت كو فروغ دينا ہے، جنگ .. لڑائى يا خونريزى كو نہيں. اور اس بات پر  بهى تاكيد كرنا تها كہ دنيا كے تمام اديان اور مذاہب انسان كو پامال كرنے اور اس كى توہين كى ہر صورت كو مكمل طور پر رد كرتى ہے.

ہر كام كى طرح  اس دستاويز كے پہلے الفاظ بهى  الله رب العزت كے نام سے شروع  ہوتے ہيں، جس كو ہم رحمان اور رحيم كہہ كر ہرروز بلاتے ہيں، جس منصف اور عادل ذات سے  ہم سب امن وسلامتى كى دعا كرتے ہيں  اور جس ہستى سے ہم ہر شر اور برائى سے پناه مانگتےہيں.

اس دستاويز  پر فضيلت مآب شيخ الازہر اور وٹيكن كے پوپ نے مختلف مذاہب كے ليڈروں كے سامنے دستخط كى، ہم قارئين حضرات كے لئے اس كى چند اہم ترين تفصيلات پيش كرتے ہيں :

اس اللہ رب العزت کے نام سے جس نے تمام انسانوں کو حقوق وواجبات اور عزت وشرافت میں برابر پیدا فرمایا ہے، اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ اس زمین کو آباد کر سکیں، خیر وبھلائی، پیار ومحبت اور امن وسلامتی کو فروغ دے سکیں۔

اس پاکیزہ انسانی جان کے نام جس کے خون بہانے کو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے اور بتایا کہ جس نے ایک جان پر ظلم وزیادتی کی گویا کہ اس نے ساری انسانیت پر ظلم وزیادتی کی، اور جس نے ایک جان کو زندگی بخشی گویا کہ اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔

ان فقیر ومحتاج، بے بس ولاچار اور محروم افراد کے نام جن کے ساتھ اللہ رب العزت نے حسن سلوک کرنے اور ان كى مدد کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ تو ہر انسان پر فرض ہے خاص طور پر خوشحال اور صاحب استطاعت شخص پر، تو لازم ہے کہ وہ ان جیسے افراد کی مدد اور معاونت کرے۔

ان یتیموں، بیواؤں، اپنے ملک ووطن اور گھر بار سے دور بے گھر پناہ گزینوں، جنگ وجدال اور ظلم وزیادتی کے شکار کمزور وناتواں، ڈرے سہمے قیدی اور مصائب زمانہ کے مارے افراد کے نام۔

اس قوم کے نام جو قتل وقتال، ہلاکت وبربادی کے شکار اور امن وسلامتی اور باہمی زندگی کے خواہاں ہیں۔

اس انسانی اخوت وبھائی چارہ کے نام جو تمام انسانوں کے لئے ہے، اور جو ان کو ایک جان دو قالب کا مصداق بنا سکتی ہے۔

اس اخوت وبھائی چارہ کے نام جس کا گلا تعصب اور امتیازی سلوک كى پالیسیوں نے دبا دیا ہے ۔

اس آزادی کے نام جو اللہ رب العزت نے ہر فرد کو عطا کی ہے، اور اسی آزادی کی فطرت پر پیدا فرما کر اسے دوسروں سے ممتاز فرمایا ہے۔

اس عدل وانصاف اور رحم وکرم کے نام جو ملک وملت اور اصلاح وصلاح کی اصل ہے۔

ان افراد واشخاص کے نام جو اس کائنات کے ہر علاقہ میں مكمل عزم وارادہ کے حامل ہیں۔

اللہ رب العزت اور اوپر بیان کردہ باتوں کے نام ازہر شریف مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اور کیتھولک چرچ مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام  کیتھولک چرچ کی نمائندگی کرتے ہوئے گفت وشنید، مشترکہ تعاون اور دو طرفہ تعارف کے طریقہ کو اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

 

اس موجودہ دنیا کی حقیقت وماہیت، اس کی کامیابیوں، اس کے رنج وغم اور تکلیف وپریشانی کے سلسلہ میں مکمل طور پر غور وخوض کرنے کے بعد یہ اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائے کہ آج دنیا کے بحران کا سب سے اہم سبب انسانی ضمیر کا فقدان اور دینی اخلاق سے دوری ہے۔ اسی طرح انسان کو معبود بنانے اور دنیوی مادی اقدار کو بلند پایہ اعلی اخلاق ومبادی کی جگہ رکھنے والے مادی فلسفوں اور انفرادی رجحانات کا بول بالا ہے۔

اس دستاویز میں سابقہ وہ تمام عالمی دستاویزات موجود ہیں جن میں عالمی امن وسلامتی کے قیام کے سلسلہ میں ادیان ومذاہب کے کردار کی اہمیت کی طرف توجہ دی گئی ہے - لہذا یہ دستاویز مندرجہ ذیل باتوں کی تاکید کرتا ہے۔

  • دل کے اندر راسخ یقین ہو کہ ادیان ومذاہب کی صحیح تعلیمات امن وسلامتی کے اقدار کو مضبوطی سے تھامنے، مشترکہ زندگی، انسانی اخوت وہمدردی، باہمی تعارف کى قدروں کو بلند کرنے، حکمت، عدل وانصاف اور حسن سلوک کو فروغ دینے کی دعوت ديتے ہیں، اور اسی طرح قانون کی طاقت کے بجائے ، اندھے نفع پسند پالیسیوں کی خطرناکی اور مادی فکر کے دسترس سے نئی نسلوں کی حمایت کرنے کے لئے نوجوانوں اور بچوں کے اندر دینداری کے رجحان کو پیدا کرنے کی دعوت ديتے ہیں۔
  • عقیدہ، سوچنے سمجھنے، اپنی بات رکھنے اور مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہر شخص کا حق ہے۔ دین، رنگ، نسل، جنس اور زبان میں اختلاف مشيئت الہی کی ایسی حکمت ہے جس پر اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اسے ایک اصل قرار دیا ہے جس سے عقیدہ کی آزادی کے حقوق اور اختلاف کی آزادی متفرع ہوتی ہے، اور اسی بنیاد پر لوگوں کو کسی خاص مذہب اور دین، کسی خاص تہذیب وثقافت کے لئے مجبور کرنا، یا کسی شخص پر کوئی طریقہ تھوپنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے جرم قرار دیا گیا ہے۔
  • اچھی زندگی تک پہنچنے کے لئے رحمت اور محبت پر قائم عدل وانصاف ہی ایک واحد راستہ ہے جس کے سایہ میں ہر انسان زندگی گذار سکتا ہے۔
  • گفت وشنید، افہام وتفہیم، عفو ودرگذر، ایک دوسرے کو قبول کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارنا ہی وہ طریقہ ہے جس کی بنیاد پر تمام سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ماحول کی وہ ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی جن سے آج کا انسان دوچار ہے۔
  • مسلمانوں کے درمیان گفت وشنید کے طریقہ کا مطلب مشترکہ سماجی انسانی اور روحانی اقدار میں یکسانیت پیدا کرنا ہے، اور انہیں کی بنیاد پر وہ اخلاق کریمانہ کو فروغ حاصل ہوگا جس کی دعوت تمام ادیان ومذاہب نے دی ہے اور ہر  جس كى وجہ سے ہر قسم کى جنگ اور لڑائياں  ختم ہو جائیں گى۔
  • مسجد، مندر اور گرجا گھر جیسے تمام عبادت گاہوں کی حمایت اور حفاظت کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے تمام ادیان ومذاہب، انسانی اقدار اور بین الاقوامی قوانين اور دستاویزات نے قبول کیا ہے، اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا، یا انہیں ڈھا دینا، یا انہیں بم سے اڑا دینے کا ادیان ومذاہب کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ تو بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
  • مشرق ومغرب اور شمال وجنوب ہر جگہ لوگوں کے امن وامان کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی اور ڈر وخوف کا ماحول کسی دین کے نتیجہ میں رونما نہیں ہوا ، اگر چہ دہشت گردوں نے دین کے پرچم کو استعمال کیا ہے، دین کے لبادہ کو اپنے اوپر ڈال لیا ہے، بلکہ یہ تو فقر وفاقہ، ظلم وزيادتى کی پالیسیوں اور ادیان ومذاہب کے نصوص کی غلط سمجھ کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ اسی لئے مال یا ہتھیار یا منصوبہ بندی یا جواز یا میڈیا کے سایہ کی فراہمی کے ذریعہ دہشت گرد تحریکوں کی امداد بند کرنا لازم ہے، کیونکہ اس کا شمار عالمی امن وامان اور سلامتی کو نشانہ بنانے والے بین الاقوامی جرم میں ہے، اور اس طرح کی ہر دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی شکل وصورت کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔
  • شہریت کا مفہوم ان حقوق اور ذمہ داریوں کی برابری پر قائم ہے جن کے سایہ میں تمام لوگ عدل وانصاف کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں، اسی لئے ہمارے سماج میں شہریت کے مکمل مفہوم کو راسخ کرنے کے سلسلہ میں کام کرنا اور "اقلیتوں" جیسى اصطلاح کے استعمال سے پرہیز کرنا ضروری ہے جس كى وجہ سے دوری اور کمتری کا احساس پيدا  ہوتاہے، اور اس سے فتنے اور فرقت وارى پيدا ہوتى  ہیں۔ اسی کی وجہ سے بعض شہریوں کے حقوق کے پامال ہونے کے خطرات رونما ہوتے ہیں، پھر آپس میں ایک دوسرے کے درمیان امتیازی شان برتنے کی کیفیت پیدا ہوگی۔
  • مشرق ومغرب کے درمیان تعلقات  دونوں کے لئے بہت ضروری ہيں،  اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے غفلت برتی جا سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں تہذیب وثقافت کی گفت وشنید اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت سے مستفید ہو سکیں۔ ایسا ممکن ہے کہ مغرب کو مشرق کی تہذیب وثقافت میں کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے وہ مادی پہلو کے غلبہ کے نتیجہ میں رونما ہونے والی کسی دینی اور روحانی بیماری کا علاج کر سکے، اور ایسا بھی ہو سکتا ہے مشرق کو مغربی تمدن میں بہت ساری ایسی چیزیں مل جائیں جن کی بنیاد پر وہ اپنی ثقافتی، تکنیکی، سائنسی گراوٹ، کشمکش، انتشار اور کمزوری کی صورت حال کی اصلاح کر سکے، اور سب سے اہم بات اس تاریخی، ثقافتی اور دینی فرق کی طرف متوجہ کرانا ضروری ہے جو مشرقی انسان کی شخصیت، اس کی تہذیب وثقافت میں ایک بنیادی عنصر کے مانند ہے، اور اسی طرح مشترکہ عام انسانی حقوق کو دلوں کے اندر راسخ کرنے کے سلسلہ میں کام کرنے کے اہمیت پر تاکید کرنا ضروری ہے، کیونکہ اسی کے ذریعہ دو ترازو سے وزن کرنے کی پالیسی سے دور ہو کر مشرق ومغرب کے تمام انسانوں کے لئے اچھی زندگی کی حفاظت ممکن ہے۔
  • کام اور تعلیم وتربیت کے میدان میں خواتین کے حق کا اعتراف کرنا اور ان کو سیاسی حقوق حاصل کرنے کا موقع دینا، جديد  وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اسی طرح اپنے عقیدہ اور عزت وشرافت کے منافی سماجی اور تاریخی دباؤ سے آزاد ہونے کے سلسلہ میں کام کرنا بھی ضروری ہے، فائدہ اور لطف اندوزی کے سامان یا سامان تجارت کی طرح ان کے ساتھ معاملہ کرنے اور جنسی استغلال سے بھی ان کی حفاظت کرنا ضروری ہے، اسی لئے خواتین کی عزت وآبرو کے منافی ہر طرح کے عادات وتقالید اور غیر انسانی کاموں کو بند کرنا ضروری ہے، اور ان قوانین کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو خواتین کو اپنا مکمل حق حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔
  • ہر خاندان  کے اندر تعلیم وتربیت، کھانے پینے اور نگرانی جیسے بنیادی حقوق  كى فراہمى معاشرہ اور فیملی پر واجب ہیں، اور ان حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی ضروری ہے، اور یہ بھی کوشش کرنی ہوگی کہ کوئی بچہ کسی بھی جگہ اپنے ان حقوق سے محروم نہ ہو سکے، اور ان کے حقوق یا ان کی عزت کو پامال کرنے والی ہر کوشش کی مذمت کی جائے ، اور اسی طرح اس بات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ معصوم،  بچوں کی تجارت اور حقوق کی پامالی جیسے خطرناک امور میں نہ پھنس جائیں۔
  • بوڑهوں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کے حقوق کی حفاظت ايك دینی اور سماجی فریضہ ہے، اور بین الاقوامی دستاویزات اور قانون کے ذریعہ ان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

اسی سلسلہ میں کیتھولک گرجا گھر اور ازہر شریف کے درمیان ہونے والے مشترکہ تعاون کے ذریعہ ہم اعلان کرتے ہیں، اور یہ عہد وپیمان کرتے ہیں کہ ہم عالمی فیصلے، دنیا کے علمائے دین، اثر ورسوخ والے رہنماؤں ، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں، سول سماج کی تنظیموں، دینی اداروں اور دانشوران تک ان دستاویزات کو پہنچانے کے سلسلہ میں کام کریں گے، اور تمام بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر انہیں نشر کرنے کی کوشش کریں گے، اور تعلیم وتربیت، میڈیا، قانون سازی کے نصوص اور فیصلوں اور پالیسیوں میں انہیں داخل کرنے کی دعوت دیں گے۔

اسی طرح ہم اس بات کا بھی مطالبہ کریں گے کہ ان دستاويزات پر تمام اسکولوں، يونيورسٹيوں اور تعلیم وتربیت کے انسٹٹيوٹ میں غور وفکر کیا جائے، ان پر مقالات لکھے جائیں تاکہ ہماری نئی نسل خیر وبھلائی اور امن وسلامتی کے پیامبر بن کر نکلیں اور وہ ہر جگہ مظلوم، بے بس اور پریشان حال کے حق کا دفاع کر سکیں۔

خاتمہ:

میں امید کرتا ہوں کہ یہ دستاویز تمام نیک ارادے ركهنے والے افراد، مسلمان اور غیر مسلمان اور تمام ادیان ومذاہب کے پیروکاروں کے درمیان بھائی چارہ اور صلح وصفائی کی دعوت بنے۔

یہ دستاویز بھائی چارہ، عفو ودرگذر کے اصولوں كے قائل افراد، اور انتہا پسندی اور ناپسندیدہ تشدد سے نفرت کرنے والے ہر شخص کی زندہ ضمیر کے لئے ایک آواز بن جائے۔

یہ دستاویز مشرق ومغرب اور شمال وجنوب اور ہر اس شخص کے درمیان رمز وعلامت بن جائے جو یہ ایمان ركهتا ہو کہ اللہ رب العزت نے ہمیں پیدا کیا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو جان سکیں، آپس میں تعاون کر سکیں اور آپس میں محبت کرنے والے بھائیوں کی طرح ایک ساتھ مل كر  زندگی گذار سکیں۔

ہم اسی کی امید کرتے ہیں اور اس کی تکمیل کے سلسلہ میں کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ دنیا کے ہر گوشہ ميں امن وسلامتی  كى فضا قائم ہو ،اور  تمام لوگ اس کے سایہ میں خوشی خوشی زندگی گذار سکیں۔

 

شیخ الازہر                                                  پوپ آف وٹيكن

احمد الطیب                                                 فادر فرانسیس

 

 

Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.