نفس كى قسميں

  • | پير, 8 جولائی, 2019
نفس كى قسميں

     قرآن پاك ميں لفظ "نفس " بہت سے معنوں ميں استعمال ہوا ہے، يہ انسانى شخصيت كے ظاہرى اور باطنى پہلوؤں كے مجموعہ  پر بھى بولا جاتا ہے، اور اس توانائى كے لئے بھى جس سے انسان ميں تميز كى صلاحيت، شعور اور احساس كى قوت پيدا ہوتى ہے، نفس انسانى شخصيت كى ظاہرى اور باطنى كيفيتوں كا مجموعہ  ہے، لہذا  نفس كے حقوق وہى ہيں جو انسان كے جسم اور اس كى روح كے حقوق ہيں۔

انسان كى ذات  يا   نفس ايك ايسى غير مادى  چيز  ہے جس ميں خير وشر كى قابليت موجود  ہے، دوسرى ہر قوت كى طرح  اس كا استعمال   ہى اسے خير ياشر بنا ديتا ہے، جب انسان  اسے انسانيت كى بلند اقدار، ان كے  تحفظ اور استحكام كے لئے عمل ميں لاتا ہے تو يہ "خير"  كا موجب بن جاتا ہے اور جب انسان اسے  اپنى ناجائز  خواہشات  كے لئے استعمال كرتا ہے تو يہ  جذبہ "شر"  كا مظہر بن جاتا ہے ۔

قرآن كريم كى اصطلاح ميں اسے"نفس اماره" كہا جاتا ہے،(إن النفس لامارة بالسوء) [يوسف:53)] ترجمہ"نفس تو بدى پر اكسانا ہى ہے"۔ اس كے معنى  يہ نہيں كہ  نفس انسانى ہے ہى برائى  كاحكمم دينے والا ، انسان كے سفلى جذبہ سے مغلوب ہو تو ايسا ہوتا ہے،  ورنہ يہ صورت پيدا نہيں ہوتى چناچہ اسى آيت كريمہ ميں يہ استثناء بھى ہے۔

بعض اوقات انسان كى ذات  برائى  كرنے كے بعد شرمندگى محسوس كرنے لگتا ہے ، اس كو ہم آج كل كى اصطلاح ميں   

" ضمير"  كہتے ہيں،  اور اسے قرآن حكيم نے "نفس لوامة" كہا ہے۔ ارشاد بارى ہے" ولا أقسم بالنفس اللوامة" (سوره قيامہ)، ترجمہ( اور ميں قسم كھاتا ہوں  ملامت  كرنے والے نفس كى ) ۔

جب انسان محض قوانينِ  الہى كا اتباع  كرتا ہے تو اس كے نفس كى صفت امار گى اور ذات كى كشمكش ختم ہو جاتى ہے اور  ذات سفلى پر غالب آجاتى ہے ، نفس غلط راه چھوڑ كر صحيح راه پر چلنے ميں اطمينان محسوس كرتا ہے، اسے قرآن حكيم نے "نفس مطمئنہ " سے تعبير كيا ہے، ارشاد بارى ہے(ياايتها النفس المطمئنة ارجعى إلى ربك راضية مرضية)[الفجر: 27-28] ،ترجمہ( اے نفس مطمئن!چل اپنے رب كى طرف اس حال ميں  كہ تو (اپنے نيك انجام سے) خوش (اور اپنے رب كے نزديك )پسنديده ہے)۔

اور يہى  ہر مسلمان كا نصب العين ہے، اس مقصد كے حصول ميں كوئى مزاحمت نہيں ہے، اللہ تعالى نے انسان كو  بے شمار نعمتيں  اور ذہنى  قوتيں مثلا عقل وفكر ،قوت ِ اراده  وغيره عطا كى ہيں جو اس ميں  صحيح كام كرنے كى استعداد كرتى ہيں ليكن اس كے باوجود كوئى شخص  ان صلاحيتوں سے  فائده نہيں  اٹھاتا ہو تو دين ودنيا ميں بالآخر اس كے لئے تباہى ہے، اللہ تعالى كا ارشاد ہے:" ونفس وما سواها  الهمها فجورها وتقوها قد افلح من زكاها وقد خاب من دساها"[الشمس:7-10]، ترجمہ( قسم ہے جان كى اور اس ذات كى جس نے  اس كو درست كيا ،پھر اسے بدكارى اور پرہيز گارى جتلا دى، يقينا فلاح پاگيا وه جس نے اس كو دبايا ) ۔

اللہ تعالى نے برے اوربھلے كى تميز كا جذبہ پيدائشى طور پر انسان ميں ركھا، اب يہ اس كا فرض ہے كہ وه ان احكام الہى كے مطابق زندگى بسر كرے جن كے اتباع سے اس كے ايسے صالح جذبہ كى تسكين ہوتى ہے، جو مقصد ِ حيات سے ہم آہنگ ہے، يہى "نفس مطمئن"  كا تقاضا ہے۔

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.