عدل واحسان

  • | پير, 22 جولائی, 2019
عدل   واحسان

      عدل   كے اصلى معنى   "مساوى اور برابر  ہونا"  ہيں  ، عدل كے معنوں ميں ذرا  وسعت دى جائے تو تناسب وتوازن كا قرار بهى  اس ضمن ميں آئے گا، عدل افراط وتفريط كے درميان  نقطہ مساوات  ہے، يہ اطراف كو برابر  ركھتا  ہے،عدل  اللہ تعالى كى صفت عظيم  ہے۔

اللہ تعالى  كو صفتِ عدل اتنى محبوب ہے كہ قرآن  حكيم ميں  متعدد مقامات  پر اس سے اظہار  محبت  كيا  گيا  ہے ، ارشاد ربانى ہے:" إن الله يحب المقسطين"[ الممتحنة: 8]، ترجمة: ( بے شك اللہ تعالى انصاف كرنے والوں  پسند كرتا ہے) ۔حضور كريم  ؐ كا  ارشاد ہے كہ " عدل كرنے والے اللہ رب العزت  كے پاس نور كے منبروں پر ہوں گے، يہ  وه لوگ  ہيں جو اپنے اہل و عيال  كے معاملات  ميں  اور جو كام  ان كے سپرد ہوں ان ميں عدل كرتے تھے"۔

نظامِ  كائنات عدل سے وابستہ ہے، سارا نظام   اعتدال وتوازن پر قائم ہے،اللہ تعالى  نےجس طرح  كائنات كى بنياد  توازن اور عدل پر قائم كى ہے، اسى طرح  انسان  كويہ موقع بخشا كہ وہ مظاہر فطرت سے از خود سبق سيكھ كر اپنى معاشرتى اور  معاشى زندگى كى اساس بھى  اسى اصول كے تابع كرے۔

 نظام كائنات  ميں  عدل وتوازن كى جانب توجہ دلانے كے بعد اللہ تعالى  نے انسان كو كہا كہ وه اپنے معاملات  كى بنياد بھى  اسى اصول  پر قائم  كرے۔ ارشاد ہوا : ،:"إن الله يأمر بالعدل والإحسان"[النحل:90]، ترجمة: (بے شك اللہ تعالى  عدل اور احسان كا حكم ديتا ہے)۔

اللہ تعالى  نے عدل  اور احسان، دونوں  كا ذكر ساتھ ساتھ كيا  ہے، اس لئے كہ اس ذات ميں يہ دونوں صفات موجود ہيں اور اللہ تعالى ان صفات كا جلوه  اپنے بندوں ميں بھى  ديكھنا چاہتا ہے۔

انسان  كو  قدم قدم پر عدل واحسان سے واسطہ پڑتا ہے، وه اپنے تمام معاملات   ميں عدل كا متلاشى  ہے،خريد وفروخت ، كام كرنے اور اعزاء واحباب كے  ساتھ  اچهے تعلقات قائم كرنے ميں بهى اس كو   عدل واحسان  كى ضرورت ہوگى ۔

       انسان كو اپنى ذات سے بھى  عدل  كى ضرورت ہوتى ہ، اس كو چاہئيے كہ  وه  جسم  پر بيجا تشدد نہ كرے، نيند حد اعتدال كے اندر پورى  ہونى چاہئے، سخت محنت كے بعد آرام بھى كرنا چاہئے، تمام اعضائے انسانى كو  اعتدال  وتوازن سے استعمال كرنا چاہئے ،يہاں تك  عبادت  ميں  بھى  اعتدال ہونا  چاہئے ، اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

"يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر" [البقرة: 185]، ترجمة:( اللہ تعالى  تم پر آسانى چاہتا ہے وہ تم پر سختى  نہيں چاہتا ) ۔ حضور كريم ؐ نے عبادت ميں  تقشف يعنى  بے جا تشدد كى ممانعت فرمائى ہے:" تم اپنى ذات پر سختى نہ كرو كہ  اس كے نتيجہ ميں اللہ تعالى كى طرف  سے تم پر سختى كى  جائے"۔

 اسلام نے  دشمن  سے بھى عدل  واحسان كو     ضرورى قرار ديا  ہے،ارشاد بارى ہے:" وقاتلوا في سبيل الله الذين يقاتلونكم ولا تعتدوا إن الله لايحب المعتدين"[البقرة:190]، ترجمة:( اور تم اللہ كى راه ميں  ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہيں،  مگر زيادتى نہ  كرو كہ اللہ زيادتى كرنے والوں كو پسند نہيں كرتا"۔

       اسلام   نےجنگ كى حالت ميں بھى    عدل سے كام لينے  كا حكم دياہے۔اسلام ميں جنگ قيام ِامن اور نظام الہى كے قيام كے لئے لڑى جاتى ہے، جنگ كے فوراً بعد عدل حركت ميں آتا ہے، اور جنگ بھى محض فساد كو  روكنے اور اللہ كے دين  كى سربلندى كےلئے لڑى جاتى ہے، نہ دشمن قيدى سے بُرا سلوك روا ہے، نہ دشمن  آبادى كے كسى فرد كے اموال يا اولاد كو  نقصان پہنچايا جا سكتا ہے، مسلمانوں كى طرف واضح حكمِ الہى ہے كہ دشمن ملك كى عورتوں  اور بچوں كو  قتل نہ كيا جائے، نہ جانوروں كو ہلاك كيا جائے اور نہ آبادياں ويران  كى جائيں، جو لوگ اطاعت كريں ، ان كى جان    ومال كا اسى طرح احترام  كيا    جائے جس طرح  مسلمان  كى جان  ومال كا احترام كيا جانا ہم پر فرض ہے ۔

اُصول ِ عدل ہر جگہ ،ہر وقت اور  ہر معاملہ ميں جارى وسارى ہے، انسان نہ صرف ہر حالت ميں عدل  كرے بلكہ  تمام معاشرتى، معاشى اور سياسى مسائل اسى   عظيم اصول "عدل واحسان"   كے تحت طے ہونے چاہئيں ۔

Print
Tags:
Rate this article:
2.4

Please login or register to post comments.