اشیاء میں اصل "جواز" ہے

  • | جمعه, 20 ستمبر, 2019
اشیاء میں اصل "جواز"  ہے

         اشیاء میں اصل جواز ( اس كا جائز ہونا) ہے. ايك مشہور فقہى قاعده ہے كہ "الأصل في الأشياء الإباحة "، اس كا مطلب يہ ہوا   کہ اللہ رب العزت  کی پیدا کردہ تمام چیزیں مباح  يعنى جائز ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور واضح  نص(قرآنى آيات يا صحيح احاديث) موجود ہوں ، اگر کسی چيز کی حرمت يا   وجوب کے حوالے سے صحیح اور واضح نص موجود ہو تو وہ چیز حلال يا  مباح مانی جائے گی، اورا یسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے كے  بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی يا شرعى  لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میں کہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے۔

اسلام امن وسلامتى كا دين ہے، اس كا مقصد انسان كى عقلى اور نفسياتى سكون اور راحت، اور امورِ حيات كى استقامت ہے . اسلام لوگوں كى مشقت كے لئے نہيں بلكہ ان كى راحت كے لئے نازل ہوا ہے ، اور راحت پيچيدگى سے پيدا نہيں ہوتى بلكہ سہولت اور نرمى ہى اس كى چابى ہے، چنانچہ اسلام  کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت ِتكاليف اور تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے  كہ اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں كافى كم ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان آزاد پیدا ہوا ہے ، وه زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے فائده  کے لئے پيدا کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح (جائز) ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو "نظریہ اباحت اصلیہ"  کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن پاك ميں بار بار وارد ہوا ہے كہ الله ہم پر بوجھ كم كرنے كا قائل ہے،اس كو زياده كرنے كا نہيں، سوره بقره كى آيت نمبر (185) بهى اسى امر كى تاكيد كرتى ہے﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ، كئى جگہ اور ارشاد ہوا ہے كہ ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾، ترجمۃ :"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟"[سوره القمر: 22]، ايك اور مقام ميں وارد ہوا ہے كہ ﴿فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ،ترجمۃ:" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں"[سوره الدخان:58]۔

"عسر" يعنى "مشكل" كے مقابلے ميں "يسر" يعنى  "آسانى" كا لفظ قرآن مجيد ميں بار بار وارد ہوا ہے . رسول اكرمؐ  كو بهى جب دو امور يا چيزوں ميں سے ايك  كا انتخاب كرنے كو كہا جاتا تو  آپ ہميشہ آسان اور سہل چيز كا انتخاب كرتے، اعتدال پسندى كو بہترين قرار دے كر اسلام نے مسلم امت كو "امة وسطا" كہا ہے۔  

جامع الترمذى ميں وارد ہوا كہ  حضرت سلمان  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐسے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؐنے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ،(یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے) "  یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں «وما سکت عنه فھو مما عفا عنه» کے الفاظ بتا تے ہیں کہ جن کا ذکر نہیں كيا گیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔
 

  • نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعد فقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے :
  •  الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمۃ: اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔
  • إن  الأصل في الاشياء الإباحة وإن الحرمة بالنهي عنها شرعًا.ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔
  • الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع. ترجمۃ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
3.6

Please login or register to post comments.