ملازموں كے حقوق

  • | منگل, 1 اکتوبر, 2019
ملازموں كے حقوق

 

اسلام سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ  تھا اور تصورِ اخلاق  ناتراشيده تھا،  طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے بسى  كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور ميں يہ رسم اپنى تمام بھيانك شكل ميں قائم رہى تا آنكہ خاتم النبين ﷺنے اس پر كارى ضرب لگائى۔

انسان كى معاشرتى زندگى ميں بهى اسلام نے  ايك عظيم انقلاب پيدا كيا،  رنگ ونسل كے امتيازات ريت كےگھر  وندے كى طرح  گرادے گئے،اصول مساوات كے تحت سفيد وسياه ،حاكم اور محكوم ،عربى اور عجمى سب ايك ہى صف ميں كھڑے كردے گئے،صرف مسجد ميں ہى  نہيں بلكہ ہر جگہ اور مقام  پر  مسلمان ايك دوسرے سے يكساں سطح اور مرتبہ پر ملتے ہيں،يہ اس لئے اسلام كى نگاه ميں مادى شے  مثلاً  دولت ومنصب،نسلى ولسانى امتيازات،خاندانى وجاہت  اور  برترى كا باعث نہيں ہيں،صرف كردار  اخلاق سے مراتب ودرجات كا تعين ہوتا ہے جيسا ارشاد ربانى ہے: ﴿إن أكرمكم عند الله اتقاكم﴾،ترجمہ:"اللہ كى نگاه ميں  سے سب سے اچھا وه ہے جو زياده پرہيزگار ہے"  [سوره حجرات: 13]

اس طرح اسلام نے انسانى درجہ بندى كا معيار ہى بدل ڈال جس سے حسب ونسب اور دولت ،  انسان  كے مرتبہ كى كسوٹى نہيں رہى بلكہ معاشره ميں   انسان كا مقام  اس كے كردار سے متعين ہونے لگا۔

ملازم  يا  خادم   معاشرے كے ديگر افراد كى طرح بھى اس شخص پر حقوق ہيں جس كےتحت وه فرائض انجام ديتا ہے، ان حقوق كو چار حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:( خوش گفتارى، حسن ِسلوك، كام ميں معاونت، اور تحفظ ِملازمت) ۔

خادم كو اپنے اصلى نام سے پكارنا چاہئے ، پيار سے اسے كوئى اور نام سے پكارنا مقصود ہو تو وه نام بھى اچھا ہونا چاہئے، اس كا نام  بگاڑ  كر لينا  يا  اسے بد تہذيب  لقب دينا مذموم  فعل ہے، قرآن كريم ميں اس كى مذمت  آئى ہے:

﴿ولا تلمزوا انفسكم ولا تنايزوا بالألقاب﴾، ترجمہ:" آپس ميں ايك دوسرے پر طعن نہ كرو اور نہ ايك دوسرے كو برے القاب سے ياد كرو"[الحجرات:11] ۔

خادم كا مذاق بھى نہيں اڑانا چاہئے ،اكثر لوگ باتوں باتوں ايسا كرتے رہتے ہيں، ارشاد ربانى ہے:

﴿يا أيها الذين آمنوا لايسخر قوم من قوم عسى أن يكونوا خيراً منهم﴾، ترجمہ:"اے لوگو!جو ايمان لائے ہو ايك دوسرے كا مذاق نہ اڑائيں ہو سكتا ہے كہ وه (اللہ كى نگاه ميں) ان سے بہتر ہوں"[الحجرات :11] ۔

ملازم وخادم كو اس كى ذات پات كا طعنہ نہيں دينا چاہئيے،اور نہ اس كى كوئى عيب چينى كرنى چاہيئے، قرآن مجيد ميں اس باره ميں سخت حكم ہے: ﴿  ويل لكل همزة اللمزة﴾، ترجمہ:" بڑى تباہى ہے اس كے ليئے جو طعن زنى اور عيب چينى كرتا ہے"[ الهمزه:1] ۔

انسان كو چائيے كہ معاشرتى امور ميں اپنى  ذات اور خادم كےمابين عدل ومساوات  كا  رويہ اختيار كر ے، حضورپاك ؐ نےفرمايا: « جب تم ميں سے كسى كا خادم كھانا تيار كرے اور لے كر تمہار ے پاس آئے اور كھانا تيا ركرنے ميں اس نے گرمى اور دھوپ برداشت كى ہو تو چاہئيے كہ اسے ساتھ بٹھا كر كھلاؤ ،اگر كھانا تھوڑا ہو تو ايك دولقمے ہى اسے دے دو»۔حضور پاك ؐچاہتے تھے كہ صرف كھانے پينے ہى  ميں نہيں ،بلكہ يہ مساوات ملنے جلنے اور آداب ِ معاشرت ميں بھى رہے ، اس لئے انھوں نے اس دعوتِ وليمہ كو نا پسند فرمايا  جہاں صرف اميروں  كو مدعو كيا جائے اور كھلا يا پلايا ئے ۔

ملازموں كے ساتھ حسن ِسلوك كرنى چاہئيے،نبى اكرم ؐ اپنے خادم سے انتہائى شفيق برتاو  كرتے تهے ، حضرت انس بن مالك كا ايك بيان خاص اہميت كا حامل ہے:«ميں نے نبى كريم ؑ كى خدمت كى ، آپؑ نے تمام عرصہ ميں كبھى مجھےاف تك نہ كہا، نہ  كبھى كہا كہ تو  نے يہ كام كيوں كيا اور يہ كام  كيوں نہ كيا»۔ ملازموں كے ساتھ  تعلقات كى اساس  اس حديث كے مطابق ہونى چاہئيے ، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمايا: «جوچھوٹے پر شفقت نہ كرے اور بڑے كى تعظيم نہ كرے ، وه ہمارى جماعت سے خارج ہے»۔ سرور كائنات  ﷺ  خادموں كے كاموں   ميں  ان كى معاونت  فرماتے تھے اور اپنا كام خود كرتے جس كى وجہ سے ظاہر ہے كہ  خادم كو زياده كام نہ كرنا پڑتا تھا اور اس كا بوجھ  بہت ہلكا ہوجاتا تھا ۔

اگر خادموں كے   متعدد حقوق ہيں تو ان كے كچھ فرائض بھى ہيں،ان كے اہم ترين فرائض يہ ہيں كہ وه فرائض كو محنت سے سر انجام ديں، خيانت نہ كريں، جبكہ جان ومال اور آبرو  كا تحفظ دونوں طرفوں  كا مشتركہ حق ہے  اور باہمى ذمہ دارى ہے۔ اس دنيا ميں تمام رشتے دينے اور لينے پر مبنى ہيں، حقوق  كے ساتھ ساتھ ہميں اپنے فرائض بهى ياد ركهنے چاہئيے ، اور اس بات كو اچهى طرح جاننا چاہئيے كہ ہم ايك دوسرے كے بغير نہيہں  ره سكتے ، ايك مشہور عربى قول ہے كہ "خادم القوم سيدهم" يعنى كسى بهى قوم كا خادم دراصل ان كا آقا ہوتا ہے ، وه اس كى خدمات كے بغير نہيں ره سكتے. ان كى خدمات  كى  قدر كرنا ہم پر واجب ہے  اور آئنده نسلوں كو بهى اس بات  سے آشنا ہونا چاہئيے .

 

 

 

 

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.