قرآن ميں عورت

  • | منگل, 8 اکتوبر, 2019
قرآن ميں عورت

 

     فطرت كے اصولوں  كے مطابق عورت اور مرد كے درميان نابرابرى كى نسبت ہے ،اور  نابرابرى كى يہى  نسبت ان كو الگ الگ كردار ادا كرنے كے قابل بناتى ہے، نيز  يہى اختلاف  نسلِ انسانى كى بقا اور كسى بهى معاشرے كى ترقى  كا باعث ہوتا ہے ۔جنس كى بنياد پر مرد اور عورت ميں قسم كى تفريق يا امتياز برتنا ايك سنگين غلطى ہے جو نہ صرف  اسلام  كى نظر  ميں ايك گناه ہے بلكہ خالقِ كائنات كى منشا كى بهى ايك خلاف ورزى ہے، جس نے مرد اور عورت كونسلِ انسانى ميں ميں ايك مساوى مقام عطا فرمايا ہے۔- الله تعالى نے فرمايا: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا"  (لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے)  [سورۂ نساء: 1]۔

          جب سے روئے زمين پر پہلا مرد اور عورت تخليق كئے گئے، اس وقت سے دونوں كى ذمہ دارياں برابر كى ہيں۔ قرآن كے مطابق آدم  اور حوّا  احكامات ِالہى كے برابر كے پابند اور بعد ازاں شيطان كے بہكادے ميں آنے ميں بهى برابر كے ذمہ دار تهے۔  

اسلام عورت كے حقوق كو بالكل ابتدا ہى سے تحفظ فراہم كرتا ہے جب وه ايك نومولود بچى ہوتى ہے۔ اسلام اس بات پر زور ديتا ہے كہ بچى كى پيدائش كو خوشى اور كهلے دل سے قبول كيا جائے نہ كہ قديم عرب قبائل اور باہم دست وگريبان رہنے والے معاشرے كى طرز پر بيٹى كى پيدائش كو ايك شگونِ بد اور مصيبت سمجها جائے۔ قرآن اس قابلِ مذمت رويے كا ذكر كرتے ہوئے كہتا ہے: "يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ" (اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے) [سورۂ نحل: 59]۔

           اسلام ميں عورت كو وراثت كا حقدارٹهہرايا گيا ہے۔ قرآن ميں ہے: "يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11) ۞ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ" (خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے (11) اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے) [سورۂ نساء: 11، 12]

 متوفى كے رشتہ داروں ميں سے مردوں كو جتنا بهى تركہ ملتا ہے اس كا آدها حصّہ عورت كو ديا جاتا ہے۔ اس حكم كى عقلى بنياد يہى ہے كہ شريعت نے چونكہ مرد كو عورت كى ديكھ بهال كا ذمہ دار ٹهہرايا ہے چاہے اس كى حيثيت باپ، بهائى، خاوند يا بيٹے كى ہو۔ تاہم اگر مرنے والا كوئى خاص وصيت كر جائے تو عورت كو مندرجہ بالا حصے كے علاوه، اس وصيت كے مطابق مزيد مال دينے كى گنجائش بهى موجود ہے۔

          اسلامى قانون خاندان كے تمام معاملات ميں عورت كو ايك خاص رتبہ عطا كرتا ہے۔ عورت كى حيثيت بيٹى، بيوى، ماں، بيوه يا منگيتر ميں سے جو بهى ہو، اسلامى شريعت نے عورت كے لئے مالى، جانى اور ذہنى جس قدر تحفظ كى ضمانت دى ہے وه كسى بهى ملك كے رياستى قوانين سے بڑھ چڑھ كر ہے۔

اسلام نے معاشرتى زندگى كے لئے عورتوں اور مردوں دونوں پر مساوى ذمہ دارياں عائد ہيں۔ قرآن مجيد ميں آتا ہے: "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ" (اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر خدا رحم کرے گا۔ بےشک خدا غالب حکمت والا ہے) [سورۂ توبہ: 71]۔

          اسلام عورت كے لئے حصول تعليم اور ملازمت كے حقوق كى ضمانت فراہم كرتا ہے۔ الله تعالى فرماتا ہے:  "وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ" (اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے) [سورۂ بقره: 228]  اندلس ميں كئى خواتين علم كى كئى شاخوں مثلًا علم جراحى، اور علم بصارت ميں ماہر كا درجہ ركهتى تهيں۔ مشہور مفكر اور مورخ الطبرى اور قانون فقہ كے ماہر ابن جزم كى آرا كے  مطابق ايك مسلمان عورت قاضى(جج) كے عہدے پر بهى فائز كى جا سكتى ہے۔ بشرطيكہ وه اس عہدے كے لئے اتنى تعليمى وذہنى قابليت ركهتى ہو۔ مسلم تاريخ اس بات كى گواه ہے كہ كئى خواتين مسلمان معاشروں ميں با اختيار عہدوں پر فائز رہيں اور مسلمانوں كى اعلى ترين قيادت كى  معاون بهى رہيں۔      

          اسلام قانونى لحاظ سے عورت كو ايك خود مختار اور آزاد فرد تصور كرتا ہے۔ وه چاہے تو شادى كے بعد بهى اپنے اصل نام كو بر قرار ركھ سكتى ہے۔ وه آزادانہ طور پر مال كما سكتى ہے اور خرچ بهى كر سكتى ہے، قرآن ميں ہے: "لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ " (مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے) [سورۂ نساء: 32]۔              

          خلاصۂ قول ہے كہ  اسلام نے عورت کو بلند مقام ديا، ا سے ذلت سے  آزاد کرایا اور بڑى عزت دی۔ اسى لئے اسلام كے نام سے اس كو ذليل يا كم تر قرار دينے كا كوئى بهى جواز  نہيں۔

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
2.0

Please login or register to post comments.