انسانى عقل كى زينت علم ہے، علم انسانى نفس كو سنوارتى ہے ، اس كے ضمير كو زنده ركهتى ہے اور اسے باقى تمام مخلوقا ت سے ممتاز كرتى ہے ۔اسلامى نظريہ كے مطابق چند امور كا جاننا ہى عالم كہلانے كےلئے كافى نہيں ہے، ان امور پر عمل كرنا بھى ضرور ہے، حضور اكرم ؑ كا ارشاد ہے: « آدمى اس وقت تك عالم نہيں ہوتا جب تك وہ اپنے علم پر عمل كرنے والا نہ ہو»۔عمل كے لئے علم كا ہونا ضرورى ہے، علم كے بغير عمل ممكن نہيں اور نتائج حاصل كرنے لئے عمل كے بغير صرف علم كسى كام كا نہيں، علم بغير عمل كے بے معنى ہے ۔
بطور انسان علما اور كسى بهى معاشرے كے ديگر افراد كے مابين حقوق وفرائض ہوتےہيں، ليكن علماء كى ايك خصوصى حيثيت ہوتى ہے، اور ان كى يہ حيثت انہيں دوسروں سے ممتاز كرتى ہے، ان كى علمى حيثيت كو سامنے ركھتے ہوئے نبى كريم ؐ فرماياكہ:« علماء انبياء كے بعد ان كے قائم مقام ہوتے ہيں»۔علماء كى ممتاز حيثيت كو سامنے ركھتے ہوئے اسلام كچھ حقوق وفرائض متعين كرتا ہے،علماءئے كرام كے مندرجہ ذيل فرائض مقرر كئے گئے ہيں:( ( علماء با كردار ہوں،امر بالمعروف ونہى عن المنكر پر عمل پيراہوں))۔
علماء كے لئے عمل كے علاوه ايك اور پہلو بھى نہايت اہم ہے، انہوں نے عوام الناس كى رہنمائى كرنى ہوتى ہے،زبان سے پند ونصائح كا اثر اتنا نہيں ہوتا جتنا عملى مثال كا۔ بے عمل علماء كے لئے مختلف آيات اور احاديث ميں سخت وعيد آئى ہے، كيونكہ ايك جاہل آدمى جسے كسى كام كے كرنے يا نہ كرنے كےحكم كا علم نہيں اتنا قصوروار نہيں ہوتا جتنا كہ ايك ايسا آدمى جو علم ركھتا ہے، اور جان بوجھ كر اس پر عمل نہيں كرتا،يہ ايك طرح سے بغاوت ہے، قرآن مجيد ميں اس قسم كے علماء كى سخت مذمت كى گئى ہے،ارشاد بارى ہے:﴿ أتامرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم﴾، ترجمہ:"كيا تم لوگوں كو نيكى كا حكم كرتے ہو اور اپنے آپ كو بھول جاتے ہو"[البقرة: 44]۔
علما ء كا كردار ايسا ہونا چاہئيے جو لوگوں كو متاثر كرے اور عوام ان كى تقليد ميں فخر محسوس كريں، كردار ميں تمام اوامر پر عمل اور تمام نواہى سے اجتناب شامل ہے، بلكہ علماء كےلئے تو بعض مشتبہات سے بھى اجتناب ضرورى ہے،تاكہ وه لوگوں كےسامنے اخلاق وكردا ركا اعلى نمونہ پيش كر سكيں،غرور ونخوت سے خاص طورپر پرہيز لازمى ہے،كيونكہ يہ ايك ايسى خامى ہے جو غير محسوس انداز سے انسان كے كردار ميں شامل ہو جاتى ہے خصوصاً جبكہ اسے علمى برترى حاصل ہو، ايك عالم كا فرض ہےكہ اس كى حركات وسكنات اسلامى آداب كےعين مطابق ہوں، جس سے معلوم ہو سكے كہ اس كے علم كا اثر اس كے اعمال پر ہے ،ورنہ وه عالم بے عمل ہوگا ۔
موجودہ دور ميں عام مسلمانوں ميں علم كا فقدان اور خوانده طبقہ ميں مذہب سے روگردانى كى بنا پر علماء پر يہ فرض عائد ہوتا ہے كہ وه قرآن كے اس حكم پر عمل پيراہوں: ﴿ ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر﴾، ترجمہ: " اور تم ميں ايسى جماعت تو ضرور ہونى چاہئيے جو نيكى كى طرف بلاتى ہو، اچھے كام كا حكم ديتى ہو اور بُرے كام سے روكتى ہو " [ال عمران:104] ۔
معاشره كے بگڑنے اور سنوارنے كا علماء پر بہت بڑا انحصار ہے، اس لئے اب علماء كو چاہئيے كہ وه چهوٹے اختلافات كو بھلاديں اور قرآن فہمى كے بعد اس كے مطابق معاشره ميں عمل وحركت پيدا كريں، حضور پاك ؑ كا ارشاد ہے : «وہ گروه ہيں جب وه درست ہوں تو لوگ بھى درست ہوں گے جب وہ بگڑ جائيں گے تو لوگ بھى بگڑ جاتے ہيں_علماء اور حكام»۔
كچھ فرائض عوام پر بھى عائد ہوتے ہيں، انھيں چاہيئے كہ وه علماء كى اطاعت كريں، تعظيم كريں، بوقت ضرورت احتساب كريں، اصول اطاعت پر اللہ تعالى كا حكم ہے، ارشاد بارى ہے: ﴿ وأطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم﴾، ترجمہ :" تم اطاعت كرو اللہ كى، اور اس كے رسول كى اور صاحب امر لوگوں كى"[النساء: 59]، صاحب امر لوگوں ميں حكام كےعلاوه علماء مجتہدين،قانون ساز اداره،صالحين وغيره شامل ہں، لہذا ان كى اطاعت بھى فرض ہے،اور تعظيم بھى،علماء كےبلند اور رفيع مقام كا اندازه اس معروف حديث سے بھى كيا جا سكتا ہے :" علماء انبياء كے وارث اور نائب ہيں"۔