استادكے فرائض اور متعلم كے حقوق

  • | منگل, 15 اکتوبر, 2019
استادكے فرائض اور متعلم كے حقوق

 

اس كائنات  كا خالق اور  معلم  اللہ تعالى ہے، اللہ تعالى نے فرشتوں كو علم  ديا اور تخليق آدم كے بعد  اسے بھى كائنات ميں موجود  اشياء كے نام اور ان كى ماہيت  سے  آگاه كيا، اللہ تعالى نے فرشتوں سے اشياء كے نام پوچھے تو وه پكار اٹھے،﴿  سبحانك لا علم لنا إلا ماعلمتنا﴾، ترجمہ:" اے پاك ذات !ہميں علم نہيں سوائے  اس كے  جو تو نے ہميں دكھايا"[البقره:32]۔اللہ تعالى انسان كے سب سے پہلے استاد ہيں اور دنيا كے باقى تمام استاد اللہ كے نائب ہيں،اس لئے معلمى كاپيشہ نيابتِ الہى كے باعث بے حد معزز اور مقدس ہے۔

نبى كريم ؐ پر چاليس سال كى عمر ميں پہلى وحى اترى، حضور پاك ؐ عمر بھر اُمى  رہے،  اس كے باوجود يہ كس قدر اثر انگيز  واقعہ ہے كہ  اللہ تعالى نے جو سب سے پہلے وحى بھيجى اس ميں حضور ؐ كو اقرأ يعنى پڑھنے كا حكم تھا،﴿اقرأ باسم ربك الذي خلق، خلق الإنسان من علق، اقرأ وربك الأكرم الذي علم بالقلم، علم الإنسان مالم يعلم﴾، ترجمہ:" پڑھ اپنے رب كے نام  سے جس نےپيدا كيا جمے ہوئے خون كے لوتھڑے سے انسان كى تخليق كى، پڑھو اور تمھارا رب بڑا كريم ہے جس نےقلم  كے ذريعے سے علم سكھايا، انسان كو اس چيز كا علم ديا جسے وه نہ جانتا تھا"۔

اللہ تعالى  كى تلقين كى ابتداء پڑھنے سے ہوئى،اگر پڑھنے سے زياده ضرورى كوئى اور امر ہوتا تو ظاہر ہے پہلے اس كى تلقين كى جاتى ، علم كے بغير انبيائے كرام بھى مؤثر طريقے سے فريضہ  دعوت حق ادا نہيں  كر سكتے، اس لئے معلمِ انسانيت حضور پاك ؐ نے اللہ تعالى سے علم اور اس  ميں اضافے كى دعا كى ہے: ﴿رب زدنى علمًا﴾، ترجمہ:"اے پروردگار ميرے علم كو اور زياده كر"[طہ:114] ۔

صحابہ كرام ميں طلب علم كابے پناه شوق وجذبہ تھا، يہ ذوق وشوق  معلم انسانيت ؐ  كى پيہم تلقين كا نتيجہ تھا، حضور پاكؐ كا ارشاد ہے كہ"جو شخص علم كى تلاش كے لئے گھر سے نكلتا ہے وه خدا كى راہ پر گامزن ہوتا ہے"۔اس سے  علم  كى اہميت ظاہر ہو جاتى ہے۔

علم سے خود آگہى اور خود شناسى پيدا ہوتى ہے ، اس لئے انسانيت كے عظيم ترين معلم نبى كريم ؐ نے حصولِ علم كو فرض قرار ديا،آپ كا ارشاد ہے:"علم حاصل كرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔حضور پاك كا ارشاد بھى ہے:

"دانائى  كى بات (يعنى صداقت) مومن كى گم شده   چيز ہے وه جہاں  اسے پائے اس كا زياده حق دار ہے"۔

علم ايك حقيقت  يا صداقت كى  نشاندہى كرتا ہے ، لہذا   ہر طالب علم اور استاد كو انہيں  اسى نقطہء نظر سے پڑھنا   چاہئے ،وه علوم جن سے انسانيت كو كسى طرح فائده پہنچتا ہے،اس كو حاصل  كرنے والے اللہ تعالى كےہاں امتيازى حيثيت ركھتے ہيں، حضور  پاك كا ارشاد ہے:"تم لوگوں ميں سے اچھا وه ہے جس سے عوام  كوفائده پہنچے"۔

استاذ  يا معلم كے فرائض جو متعلم  (پڑهنے والے كے حقوق ہيں)  وه  درج ذيل  ہيں :

  1. معلم باركردار ہو اور كردار ساز ہو:

كيونكہ علمائے كرام انبياء كے وراث ہيں اسى لئے  معلم كا كام تعليم وتربيت دينا ہے، سلسلہء تدريس   سے پہلے ضرورى  يہ ہے كہ معلم خود مجسمہ  حسن خلق ہو، خلق نيكيوں كى صحبت سے حاصل ہوتا ہے.. اسلامى ضابطہ اخلاق ميں اچھى صحبت كو بہت اہميت دى گئى ہے،حضور پاكؐؐ كا ارشاد ہے:

"برے ہم نشين كے مقابلہ ميں تنہائى بہتر ہے، اور اچھے انسانوں كى ہم نشينى تنہائى سے بہتر ہے"، شاگردوں كو كيونكہ اپنے اساتذه سے ہم كلامى اور ہم نشينى كا زياده موقع ملتا ہے لہذا اساتذه كو اپنے كردار پر كڑى نظر ركھتے ہوئے شاگردوں كى كردار سازى كا عمل بھى مسلسل  جارى ركھنا  چاہئے۔

  1. علم كى حفاظت كرے:

مطالعہ سے علم محفوظ رہتا ہے كہ بلكہ اس ميں اضافہ ہوتا ہے، علم كو  حاصل كرنا مشكل ہوتا ہے، اور اس كى حفاظت كرنا اس سے بھى  مشكل ، حضور پاك ؐ نے فرمايا:" قرآن كا دھيان ركھو كيونكہ وه ذہن سے اتر جانے ميں ان اونٹوں سے بھى زياده سخت ہے جو رسيوں ميں بندھے ہوتے ہيں۔علم محفوظ ركھنے كا مؤثر طريقہ يہ ہے كہ اس پر عمل كيا جائے جس علم پر عمل ہوتا  رہے وه خود بخود قائم رہے گا، عمل گيا تو علم بھى رخصت ہوجائےگا۔علم كى حفاظت كا سب سے بہترين طريقہ علم كى تعليم وتشہير ہے ، اس لئے حضور پاك ؐ نے فرمايا:"علم سيكھو اور لوگوں كو سكھاؤ".ايك عالم پر فرض ہوتا ہے كہ وه علم حاصل كرنے كے بعد دوسروں كو سكھائے تاكہ علم دنيا ميں قائم اور جارى وسارى رہے ، اسى  لئے علم كے پھيلانے كو صدقہ جاريہ قرار ديا گيا ہے۔

  1. حسن ِ سلوك:

استادكو اپنے شاگرد كے ساتھخوش خلقى سےپيش آنا چاہئے تاكہان ميں فاصلہ ختم ہو،اور انہيں سوال كرنے ميں جھجك محسوس نہ ہو، رسول كريم ؐ نے دين كى تعليم دينے والوں كے لئے خاص طور پر تاكيد كى تھى، خواه وه مبلغہوں يا معلم: "آسانى كرو اور سختى نہ كرو،لوگوں كو خوش خبرى سناؤ اور متنفر نہ كرو"۔

  1. نفسيات سے آگہى ہو:

استاد كا فرض ہے كہ وه شاگرد كى ذہنى صلاحيتوں اور اس كى مخصوص عادات  كو سمجھنے اور انہيں صحيح سمت عطا كرنے كى كوشش كرے۔

اساتذه كو چاہئے كہ وه طلباء كو بنظر عميق مطالعہ كرنے اور ريسرچ كرنے كى عادت ڈاليں،يہ تب ہى ممكن ہے كہ وہ خود جو مضمون پڑھا رہے ہيں اس كے ماہر ہوں اور طلبا  كو وقت كا صحيح استعمال كروائيں ، وقت دولت ہے ، زنده قوميں ضياع وقت كو سب سے بڑا نقصان تصور كرتى ہيں، عمر عزيز مختصر ہوتى ہے جس ميں كمى بيشى ممكن  نہيں  اس كى قدر وقيمت حسن استعمال پر موقوف ہے۔ اسى لئے يہ كہنا بجا ہوگا كے استاد يا معلم محض ايك نام يا ايك پيشہ نہيں بلكہ ايك عظيم فعل اور پيغام بهى ہے. يہ  ايك ايسى امانت ہے جس كى حفاظت دوسروں سے دينے سے پورى ہوتى ہے صرف اپنے پاس ركهنے سے نہيں ، اور اس امانت ميں خيانت كرنا حقيقى استادوں كو شيوه نہيں ہے .

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
2.2

Please login or register to post comments.