حکومتی سطح پر ایک عظیم الشان جلسہ عام انڈونیشیا کی طرف سے امام اکبر کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا گیا -

  • | جمعرات, 25 فروری, 2016

 ازہر شریف کا پیغام اہل السنت والجماعت کے مسلک  پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے -

حکومتی پیمانہ پر ایک خاص اہتمام اور استقبال

انڈونیشیا کے مشرقی صوبے جاوہ کے شہر ما لانج میں واقع مولانا مالک ابراہیم نامی سرکاری اسلامی یونیورسٹی نے اپنے احاطہ میں منعقد ایک عظیم الشان جلسہ میں امام اکبر پروفيسر ڈاکٹر احمد الطيب شيخ الأزهر اور مسلم علماء كونسل کے صدر کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا-

اس تقریب میں انڈونیشین طلبہ وعلماء ، مختلف جامعات وكليات کے اساتذہ اور ذمےداران حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اسی طرح سینکڑوں لوگوں نے راستے میں صف بصف کھڑے ہو کر امام اکبر کا  نہایت پر جوش استقبال کیا -

تقریب کے دوران امام اکبر نے اپنی گفتگو میں بڑے پرزور انداز میں کہا کہ علم و معرفت ہی ہر طرح کی ضلالت وگمراہی سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے، مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ازہر کا پیغام اہل السنت والجماعت کے مسلک کو مضبوطی سے تھامنا ہے -

  اہل علم حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا  کہ معرفت اور تعليم  ایک پیغام اور  زندگی کا نام ہيں  اور علماء کے لئے یہى عزت کافی ہے کہ تعليم اور تدريس انبیاء کى رسالت ہے -

 امام اکبر نے اشارہ کیا کہ جہاں ازہر شریف ایک  طرف اپنی دعوتی اور علمی پیغام کی نشرواشاعت میں مصروف  ہے تو وہیں دوسری طرف عقیدے كے تشبیہ وتاویل كے باب سے دور وسطیت اور اعتدال کی صفت سے ممتاز ہے ، مزید کہا کہ ازہر شريف  اسلامی پیغام کی فہم وفراست اسکی تعلیم اور دعوت میں اہل السنت والجماعت کے مسلک پر گامزن ہے، ازہری منہج کا امتیازی شان تراثی کتابوں کے نصوص کى گہرائی اور گہرائی کے ساتھ تحلیل اور تجزیہ کرنا ہے، اس كے علاوه   اس بات کی بھی وضاحت کی کہ عالم اسلام میں ازہری خطاب کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ صرف اور صرف وسطیت اور اعتدال کے ساتھ علمی اور روحانی فکر کے مابین حسن امتزاج کا نتيجہ ہے۔

امام اکبر نے اپنی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ میری پرورش اور پرداخت عربی اور روحانی ہے، میرا تعلق ایک علمی اور دینی گھرانہ سے ہے، میری تربیت نہایت مشفق ،مربی اور ذی علم والد محترم کے زیر نگرانی ہوئی ہے- پھر تقریب میں اپنی نیک بختی اور سعادتمندی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ میرا یہ اعزاز مولانا ابراہیم اسلامی یونیورسٹی اور ازہر شریف دونوں اداروں کے باوقار  علماء کے اعزاز کے قائم مقام ہے-

امام اکبر نے اپنی بات ختم کرتے ہوۓ کہا کہ ازہر اس یونیورسٹی  سے  ہمیشہ اپنے علماء اور اساتذہ کے ذریعہ تعاون کرتا رہے گا ۔

اس جامعہ کے احاطہ میں آپ علماء ومشائخ سے یہ ملاقات میرے  لئے  بڑی سعادت مندی اورعزت کی بات ہے، اس سے بھی زیادہ نیک بختی یہ ہے کہ آپ کی فضا میں مجھے بحث وتحقیق کی  محك مل رہی ہے، آپ کی نگاہوں میں علم ومعرفت کی چمک دیکھ رہاہوں، مجھے آپ کو ان نعمتوں میں دیکھ کر بڑا رشک ہو رہا ہے،آپ کی کاوش،جدوجہد،اور شوق ورغبت کو دیکھ مجھے اپنی تعلیمی زندگی کے ایام یاد آرہے ہیں، تعلیم کے  لئے  یکسوئی،کس علمی مسئلہ  کی تلاش وجستجو، کتابوں میں محو ہو جانا، وہ سارے دن یاد آرہے ہیں.

میرا شعور اور احساس اچھی طرح جانتا ہے کہ جس نے بھی تعلیم وتعلم کو اپنا وظیفہ بنایا،  اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے  تو اس کے لئے   يہ عزت  کافی  ہے کہ یہ انبیاء کى رسالت  ہے،  اور معلم کے لئے  اللّٰہ کے نبی کا یہ فرمان کافی ہے کہ"میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں"، اور اس شعور وجذبات کا احساس وہی کر سکتا ہے  جس نے سچی طلب، طویل غوروفکر، تلاش وجستجو کی تگ ودو کے بعد ایک حقیقت کا انکشاف کیا ہو، علمی حلاوت وچاشنی سے محظوظ ہوا ہو، تحقیقی ذوق سے سرشار ہوا ہوـ  اور امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمیشہ یہ الفاظ دہرایا کرتے تھے"حکیم سے پوچھا گیا کہ سعادت مندی کیا ہے، انہوں نے جواب میں کہا کہ ایسی دلیل جو وضاحت کے بعد سر چڑھ کر بولے اور ایسا شک وشبہ جو ظھور کے بعد مندمل ہو جاۓ

علم ومعرفت ايك عظيم احتياج ہے، یہ دانشوروں پر پہلا  فريضہ ہے، کیوں کہ یہ انبیاء کی میراث ہے اور انبیاء نے کسی کو دینار  ودرہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا، اور یہ جنت کے دروازہ کی چابی ہے ، اللہ کے نبی کا فرمان ہے "جس نے بهی علم کی تلاش وجستجو میں سفر کیا اس کی مشقتوں کو برداشت کیا، اللّٰہ   رب العزت اس کے لئے  جنت کا راستہ آسان فرما دیں گے"،  یہ علم ضلالت وگمراہی سے حفاظت کا ذریعہ ہے، اللہ کے نبی کا فرمان ہے کہ"اللّٰہ رب العزت علم کو یکبارگی ختم نہیں کرے گا بلکہ علماء کے وفات کے ساتھ ساتھ علم بھی اٹھتا چلا جائیگا، پهر صرف جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے فتوی پوچھا جائیگا تو وہ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ دیں گے پس دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گےـ(بخاری )

لہذا آپ کو یہ خوشگوار زندگی بہت بہت مبارک ہو، اسی طرح اس شخص کو مبارک ہو جسے اللّٰہ نے اعزاز بخشا اور اس نے اس اعزاز کا بہت پاس ولحاظ رکھا، اللہ کا فرمان ہے" اللہ رب العزت اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے"( سورۃ مجادلہ آیت نمبر۱۱)

میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ علم ومعرفت کے ایک منارہ کی حیثیت سے ازہر  شريف کے قیام پر ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے،اس وقت سے آج تک اپنے علم ومعرفت کی روشنیوں سے سارے عالم  كومنور کرتا آرہا ہے، مختلف ملکوں سے آۓ ہوۓ طلبہ کی زندگیوں کو علمی ، دینی ، تمدنی اور ثقافتی طور پر آراستہ کرتا آ رہا ہے،  اس علم ومعرفت کے منارہ کا قیام مصر میں ہوا ، جو دو بر اعظم ایشیاء اور افریقہ پر مشتمل ہے، اور انہیں دو بر اعظموں کے فرزندان اسلام کثرت سے اس ریاض ِعلم میں محو گل چینی اور چمن آرائی ہیں_

آج آپ حضرات کے مابین میری موجودگی بھی ازہر ہی کا دین ہے انڈونیشیا کے علم وعلماء کے قلعہ جاوہ میں یہ قابل قدر اور قابل تحسیں اعزاز حقیقت میں جامع اور جامعہ کی حیثیت سے ازہر کا اعزاز ہے- بلکہ موصوف کا علم و علماء اور ازہر کے خادم اور مسلمانوں کے ترجمان کی حیثیت سے یہ سارے مسلمانوں کا اعزاز ہے-

 ازہر  شريف محض ایک دینی درسگاہ یا یونیورسٹی نہیں ہے ، جیساکہ آپ کو معلوم ہے اور ممکن ہو کہ يہ  انسانی تاریخ کی قدیم ترين  درسگاہ ہے جس کا فیض صدیوں سے آج تک جاری وساری ہے لیکن ازہر  شريف تو حقیقت میں ایک پیغام ہے ایک منہج ہے اور ایک ممتاز فکری خطاب ہے ۔

ازہر شريف  اسلام کے دعوتی وعلمی, بین الاقوامی امن وشانتی, برابری ومساوات, عدل وانصاف, انسانیت کے احترام اور انسان کو بوجھل کر دینے والے بیڑیوں اور بندشوں سے آزادی کے پیغام کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہے-

فرمانِ الہى ہے كہ  ) رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے)     ( البقرة : آيت نمبر 285)

ازہر اس پیغام کی فہم وفراست اور اسکی تعلیم  ودعوت میں غیر جانبدارانہ طور پر ائمہ اربعہ کے اصول وقواعد اور اشعری فکرو نظر سے مستفاد اہل السنت والجماعت کے مسلک پر اعتدال ووسطیت کے ساتھ قائم اور دائم ہے-

یہی وجہ تھی کہ ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ ، امام مالک،  امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہم ازہر تشریف لایا کرتے تھے اور آج بھی فکری وسعت, حقیقت پسند نگاہ, سچی نیت وطلب اور امت کے مختلف جدید مسائل وضروریات کی تکمیل کے لئے طاقتور دلیل کی تلاش کے پیش نظر ان کے اصول وقواعد ازہر کے رواقوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ازہر کا ایک خاص منہج ہے وہ اس طور پر کہ پہلے پہل عربی زبان وادب کی لیاقت وصلاحیت پیدا کی جاتی ہے،  پھر اصول کی روشنی میں قرآن اور حدیث کی اس طرح تعلیم ہوتی ہے کہ طلبہ کے اندر استنباط کی صلاحیت پیدا ہو ، یعنی اصول ِفقہ ودین  ، علوم قرآن وحدیث اور  فقہ مقارن کے تعاون سے قرآن وحدیث سے مسائل مستنبط کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے, اسی طرح اسلامی تہذیب وثقافت ، قدیم  وجدید ادب اور مشرقی اور مغربی فلسفہ کی تعلیم دی جاتی ہے- تاکہ  طالب علم ماضی اور حاضر سے استفادہ کر کے روشن مستقبل کی تعمیر کرے اور صحیح منہج کے مطابق نئے مسائل کے فتوے دے۔

اگر آپ مجھ سے ازہر کے امتیازی شان سے متعلق سوال کریں تو میں کہونگا کہ عربی اور اسلامی تراث کی کتابوں کا گہرائی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا  لغوی صلاحیت کے ساتھ ساتھ شرعی صلاحیت کو ترقی دینا یہی ازہر کى  امتیازی چابی ہے-

مجهے ازہر شريف كے اولين اور بہترين علما كے علم سے فيضياب  ہونے كا موقع ملا، جنہوں نے شرعى علوم كے اصل منہاج، عربى فيلسوف" يعقوب الكندى"  كى اسلامى حكمت اور " الجنيد البغدادى، الحارث المحباسى، أبى القاسم القشيرى ، أبى حامد الغزالى  كے روحانى مسلك سے استفاده حاصل كيا تها.

امامِ مجدد ابن دقيق العيد، شيخ الاسلام زكريا الانصارى، ابن حجر العسقلانى ، امام حسن  العطار، عليش، محمد  عبده ، المراغى، مصطفى عبد الرازق اور سلمان دنيا وغيره اسى خوبصورت امتزاج سے متاثر ہوئے اور يہى  ازہرى خطاب اور طريقۂ كار كے اہم ترين اور امتيازى اصول ہيں جو عقيدہ اسلام كى وسطيت اور روادارى پر تاكيد كرتا ہے .

 

اور اللّٰہ کے فضل وکرم سے مجھے اسی نہج پر ازہر اور اسکے علماء ومشائخ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے ۔

میرے لئے سعادتمندی اور خوش بختی ہے کہ میں آپ کے ملک کے سفر پر ہوں ۔اور مجھے عالم عربی اور اسلامی کے مختلف جامعات میں خدمت کرنے کا موقع ملا ہے ۔اور آج میں آپ کے علمی اور دینی درسگاہ ازہر شریف کا ترجمان اور نمائندہ بن کر آپ کے مابین ہوں۔  مجهے آپ کی ایمانی ، انسانی اور ثقافتی غیرت وحمیت پر مکمل اعتماد ہے-

آخر میں, میں آپ کا اس اعزاز پر دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں اور اسے ازہر اور اس یونیورسٹی کے فرزندوں کا اعزاز قرار دیتا ہوں ۔۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.