جاكرتہ سےامتِ مسلمہ كے لئے تاريخى خطاب

  • | بدھ, 24 فروری, 2016

معزز سامعین اکرام
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی بات اللہ رب العزت کی تعریف، اس کی پاکی اور اس کے بارگاہ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں، اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجلس حکماء مسلمین کے تعاون سے  اس نے مجھے اور میرے ساتھ ازہرشريف کے وفد کو انڈونیشیا کے سفر، یہاں کے تمام نیک طینت وپاک صفات عوام سے ملاقات اور خاص طور پر میرے دینی اور ایمانی پہائیوں سے گفت و شنید کا موقع عنایت فرمایا، اس عوام کو امت کی نگاہ میں ایک  خاص مقام و حیثیت، اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایک امتیازی شان، اور عقیدے، اخلاق اور شریعت کی تطبیق کے باب میں اسلام سے مخلصانہ تعلق کی وجہ سے مصر اور اہل مصر کی محبت حاصل ہے -
میں آپ کی تعریف میں مبالغہ نہ کروں گا اگر کہوں کہ اللہ رب العزت نے اس دین کی شکل میں اسلام کو پوری دنیا میں پیش کرنے کی آپ کو ایک خاص طاقت وقدرت عطا فرمایئى ہے جو دین ، دنیا اور آخرت دونوں جہاں کی سعادت کی دعوت دیتا ہے، جس کے سایےمیں قدامت کی پختگی وعمدگی اور جدت کی شان و شوکت کا امتزاج ہوتا ہے اور جس کی وسعت وکشادگی میں فرد اور جماعت کی ضروریات اورمفادات یکجا ہو جاتے ہیں.
یہاں کے باشندوں نے دین ِحنیف کے خزانوں کو واں کیا، عدل و مساوات ،خیر و پہلائ کی وسعت اور اس کے فروغ جیسے اسلامی تعلیمات اور اخلاقی قدروں کو واضح کیا، طاقت وقوت کے وسائل وذرائع کی حصولیابی اور سائنسی اور تکنیکی أسباب وآلات کی ملکیت پر زور دیا،  ان مادی اور روحانی طاقت وقوت کے باوجود اللہ رب العزت پر توکل اور اعتماد جیسے صفات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا-
ایمان اور علم وعمل کے درمیان امتزاج نے انڈونیشیا کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مابین اولین حیثیت سے نوازا، ایشیائی شیروں کے درمیان نڈر ، بےخوف ،متحمل مزاج اور بہادر بنا دیا، اور ایک بہت ہی شاندار مثال اور عمدہ نمونہ اس طرح پیش کرنے کا موقع ملا کہ اسلام دنیا اور آخرت دونوں جہاں کا دین ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ ہے اور پوری انسانیت کا مذہب ہے، اور عملی دلیل کے زریعہ دشمنانِ اسلام کے تمام بے بنیاد الزامات اور بہتان تراشیوں وقیاس آرائیوں کہ اسلام سستی وکاہلی اور کهانے پینے کا دین ہے، سماجی تخلف کا نام ہے، سیاسی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے، بلکہ آج ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع انڈونیشیا اپنے غیر معمولی قابل رشک سیاسی معاشى ترقی کی وجہ سے سارے مسلمانوں کے لئے باعث ِاعزاز بن گیا ہے.
انڈونیشیا کے باشندوں کے دلوں میں اسلام کا وہ پیغام جاگزیں ہے جو مسلم تاجروں کے ذریعہ ان تک پہنچا تها، پهر ان کے متانت ووقار ، نرم مزاج، سنجیدگی ، عاجزی وانکساری صفت طبیعتوں نے شریعت ِاسلام کے عدل وانصاف ،سخاوت وفیاضی اور فراخ دلی جیسے نمایاں اور ممتاز صفات کو قبول کیا اور ہاتھوں ہاتھ لیا -
نوسانتارا نامی علاقہ وہ پہلا علاقہ ہے جس نے اسلام کا اس زمانہ میں سب سے پہلے استقبال کیا تها، پهر اس کے بعد وہاں سے اسلام پهیلنا شروع ہوا ،وسعت اور جدت کے مراحل طے کرتے ہوئے آج انڈونیشیا اعداد و شمار، اللہ اور اسکے رسول اور قرآن وشریعت سے محبت کے اعتبار سے سب سے بڑا اسلامی ملک بن گیا ہے.
اور جہاں تک مصر اور انڈونیشیا كےباشندوں کے مابین ربط و تعلق کی بات ہے ،بعض مورخین کے قول کے مطابق اس کا سرا مغل دور سے ملتا ہے ، پهر یہ ربط و تعلق زمانہ کے ساتھ ساتھ ترقی پاتا رہا یہاں تک كہ یہ ربط و تعلق ایک باہم تجارتی، علمی  اورثقافتی ربط و تعلق میں تبدیل ہو گیا ، انڈونیشیا کے بعض حجاج کرام حج کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ازہری اساتذہ اور علماء کرام سے علمی استفاده کی غرض سے ٹهرجایا کرتے تهے، اور یورپی مؤرخین لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی کے پانچویں دہائیوں میں پہلا انڈونیشیائی خاندان ازہری مشائخ و علماء سے علم حاصل کر نے کے لئے مصر میں مقیم ہوا، اور ان کے طلبہ ازہر کے ایک رواق میں مقیم ہوے ،بعد میں اس رواق کو انہیں کے نام سے موسوم کیا گیا،اور وه رواق جاوي هے اور قاهرہ کے طباعت خانہ انڈونیشیا کے علماء دین کی کتابوں کو زیورِطباعت سے آراستہ کرتے تھے ، اس طرح انڈونیشیا  کے باشندے  ازہر  میں مقیم اپنے فرزندوں کے ذریعہ مصر کے اسلامی فکر کے حامل ان تحریکوں سے متاثر ہوئے جس کی ذمہ داری بعد میں امام محمد عبدہ ، اور  ان کے شاگردوں نے قبول کی اور اسی طرح اس وقت کے قومی طوفاں کے لیڈراں اور  مصطفی کامل کی قیادت میں پیدا ہونے والی قومی تحریکوں سے بھی متاثر ہوئے، اور آج ازہر شریف میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ انڈونیشی طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان میں سے دوسو باسٹھ طلبہ ازہر کی کفالت میں ہیں اور ازہر ہر سال انڈونیشیا کے لیے تعلیمی وظیفہ جاری کرتا ہے اسی طرح انڈونیشیا میں ازہری تعلیم کے لئے بهیجے جانے والے معلمین کی تعداد 31 ہے.
معزز سامعین کرام
شاید کہ یہ بات سچ ہو کہ آج ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم سانس لے رہے ہیں سیاسی اور اقتصادی جیسے چند مطلق العنان اور مهلک بحران سے دو چار ہے تیسری دنیا کے ملکوں اور انکے باشندوں پر  اور شید کہ ان میں سب سے زیادہ سخت اور اور برا بحران وه جان و مال عزت و آبرو زمین و وطن امن و آمان کا بحران ہے ، شانتی اور سلامتی کا فقدان ہے آفراتفرى اور  بےچینی عام ہے ، طاقت و قوت کا بول بالا ہے ، ضعیف و ناتواں کی عزت و آبرو پامال ہے .
اور اس سے بهی زیادہ سخت اور تلخ بات یہ ہے کہ آج وحشی اور جانور جیسے افعال کئے جا رہے ہیں ، دین کے نام پر قتل و خونریزی کا بازار گرم ہے ، اس سلسلہ ميں تمام ادیان میں دین اسلام کا ذکر خصوصیت کا حامل ہے .
یہاں تک کہ دہشت گردی دین اسلام کا ایک رمز ہو گیا ہے اور اسکی ایک ایسی صفت قرار پائی ہے کہ تينوں آسمانی مذاہب میں کسی کو ایسی صفت سے موصوف نہیں کیا جاتا ہے . اور فیصلہ کرنے میں یہ ایک ظلم ہے،... دھوکا ہے ۔
يہ بالکل واضح اور نمایا ں بات ہے کہ دوسرے مذاهب کے بعض پیروکاروں نے اپنے دین کے نام پر اور اپنے مذہب کے پردوں کے پیچھے  خاص اور عام لوگوں کے حکم سے ظلم و زیادتی ، وحشت وبربریت کے وہ کارنامے انجام دئے جس سے جسم لرز جاتے ہیں ، نو مولود بوڑھے ہو جاتے ہیں لہذا مشرقِ اسلامی میں صلیبی جنگوں اور یورپ کی دینی جنگوں سے متعلق بیان کریں، یہود اور مسلمانوں کے خلاف بحث و تحقیق اور تفتیش کے محکموں سے متعلق بات کریں ، کیا یہ جنگیں پوری تاریخ میں دہشت گردی نہیں تهیں ؟ وحشیت و بربریت نہیں تهے ؟ انسانیت کے نام پرد اغ نہیں تهے ؟
اور یہ بهی کہا جاتا ہے کہ یہ ساری ظلم و زیادتی تاریخ کی ذمہ داری ہے ، اب اسکے تخریبی اثرات آج کی دنیا پر منعکس نہیں ہونگے !
تو بتاؤ آج اس کے بارے میں جسے آج دوسری صلیبی جنگ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ، یہ عبارتیں زبان پر عالم عر بی اور اسلامی میں موجود کشمکش کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکے یہ تو ایک مشہور امریکی اسکالر کی شائع شدہ کتاب کا عنوان ہے، "دوسری صلیبی جنگ اسلام کے خلاف ازسرِنو مغرب کی مہلک جنگ"، اور اس کی طرح اس موضوع پر ديگر کتابیں دستیاب ہے لیکن میں نے اس انحراف اور کجروی کو بیان کرنے کا ارادہ کیا، جس کا صدور مسلمان کی ایک چھوٹی جماعت کی طرف سے ہوا جس پر علمائےاسلام ،مفکرینِ اسلام ،دانشورانِ اسلام اور خاص اور عام بلکہ سب کے سب لوگوں نے اپنی ناپسندگی کا إظهار کیا،اس طرح کی کجروی بلکہ اس سے کئی گناہ زیادہ مقدار میں دوسرے مذاہب کے تابعداروں کے ذریعہ رونما ہوئے ہیں، اور اس پر ان کے علماء نے حوصلہ افزائی بهی کی اور برکت کی دعائیں بهی دئیں اور مجرمین کو جنت میں ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ بهى کیا .

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.