احترام ؛ايك عظيم اخلاقى قدر

  • | پير, 30 دسمبر, 2019
احترام ؛ايك عظيم اخلاقى قدر

     احترام ان تمام اقدار كا مجموعہ ہے جو زندگى كى تمام عام وخاص اخلاقى قدروں پر مشتمل ہے، اور ان اقدار كا بنيادى مقصد يہ ہے كہ انسان سب سے پہلے اپنا احترام كرے، كيونكہ اس بنا پر وه كسى دوسرے شخص كا احترام كرے گا، اگر انسان كے اندر اس كا ذاتى احترام صحيح معانى ومفاہيم كے ساتھ موجود ہوگا تو اس كا مثبت اثر دوسروں كے لئے بهى ظاہر ہوگا، اور زندگى كے ديگر شعبوں ميں بهى اثر انداز ہوگا، اور اسى طرح اگر انسان كے اندر شخصى احترام مفقود ہوگا تو طبعى طور پر اس كے منفى اثرات وتصورات اس كى زندگى كے ساتھ ساتھ دوسروں كى زندگيوں پر بهى منعكس ہوں گے.

روز مره كى گفتگو ميں عام طور پر احترام كى صفت كا اطلاق كسى شخص، رائے قوم يا برادرى پر كيا جاتا ہے، كہا جاتا ہے يہ ايك محترم آدمى ہے، وه ايك محترم رائے ہے، يہ ايك قابل احترام قوم ہے.

يہ بات واضح ہے كہ احترام كى قدر وقيمت ايك خاص معيار پر مبنى ہوتى ہے، اگر ميں كسى انسان كا احترام كرتا ہوں يا پهر اس كى رائے كو بہترين گردانتا ہوں تو اس كا مطلب يہ ہے كہ ميں اس شخص كى قدر وقيمت كا اعتراف كرتے ہوئے اس كى شخصيت كو خراج تحسين پيش كر رہا ہوں.

انسانى معاشرے كا فرد اور ركن ہونے كى حيثيت سے انسان كو اپنا احترام كرنا چاہئے، اسى كے ساتھ ساتھ اسے چاہئے كہ وه رنگ، نسل اور اعتقاد سے صرفِ نظر دوسروں كا احترام اس طور پر كرے كہ وه بهى ايك انسان ہے، الله رب العزت نے اسے محترم ومكرم بنايا ہے، اور زمين ميں اسے اپنا خليفہ اور جانشيں بنايا ہے، اسى سے انسانى زندگى كى اہميت اور احترام كا پتہ چلتا ہے، اور اس كى حرمت وحفاظت كا علم ہوتا ہے، اسى وجہ سے الله رب العزت نے انسانيت كے ايك فرد پر ظلم وزيادتى پورى انسانيت پر ظلم وزيادتى كے مترادف قرارديا ہے جيسے كہ قرآن كريم كا اعلان ہے، اور احترام انسانيت صرف اس كى زندگى تك ہى محدود نہيں ہے بلكہ موت كے بعد بهى اس كے احترام كا اہتمام كيا جائے گا.

احترام كى قدر وقيمت زندگى كے تمام زاويوں  پر اثر انداز ہوتى ہے اور ذاتى احترام اس كا مركز ہوتا ہے، پهر يہ اپنے دائره سے نكل كر اپنے قريب تر امور  پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اس سلسلہ ميں خاندان كا شمار ان قريب تر لوگوں ميں ہوتا ہے جس كو انسانى سوسائٹى ميں اولين ترجيح حاصل ہے، اور خاندان كے ساتھ ہمارا سلوك اور طرز عمل والدين كے ساتھ احترام واكرام سے پيش آنے اور ان كى خدمت سے شروع ہوتا ہے، كيونكہ يہى وه ذات ہے جن كى مسلسل عنايتوں اور شفقتوں كے سائے ميں بچوں كى پرورش وپرداخت ہوتى ہے، اور اس كے نتيجے ميں معاشرے كو ايسے با صلاحيت لوگ فراہم ہوتے ہيں جو معاشرے كى ترقى وخوشحالى كا سبب بنتے ہيں، اسى لئے والدين كى اہميت كو مد نظر ركهتے ہوئے قرآن مجيد نے ان كے ساتھ احسان كو الله  كى عبادت كے ساتھ ذكر كيا ہےلہذا سوره اسراء ميں فرمان الہى ہے: "اور تيرا پر ورد گار صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا اور ماں باپ كے ساتھ احسان كرنا" (سورۂ بنى اسرائيل: 23)_

عام طور پر معاشرے اور خاندان كى رو سے چهوٹے بڑوں كا احترام كرتے ہيں، كيونكہ بڑے لوگ سمجهدار، تجربہ كار اور زندگى كى مختلف ضروريات سے واقف ہوتے ہيں، اسى طريقہ سے احترام كا مزيد بڑادائره حكومتى نظم ونسق اور قانونى التزام پر بهى مشتمل ہوتا ہے  كيونكہ  يہ ايسى چيزيں ہيں جس كے پائيدار ہونے ميں امن وامان اور استقرار كى كيفيت باقى رہتى ہے، اور اس كيفيت سے دينى اور اخلاقى اقدار باہم مربوط ہيں كيونكہ يہى وه اقدار ہيں جو لوگوں كے درميان مضبوط امن وامان اور آپس ميں برتاؤ كا اعلى معيار بنتے ہيں، اور آپسى خلفشار اور اختلاف سے محفوظ رہتے ہوئے معاشرے ميں توازن وبرابرى كا سبب بنتے ہيں، اس كے نتيجے ميں معاشرے ميں فضائل اور نيكو كارى ميں اضافہ ہوتا ہے، اور رذائل ميں كمى واقع ہوتى ہے اور معاشره شرور وفتن سے محفوظ رہتا ہے.

احترام كو صرف شخصيات تك محدود نہيں كيا جاتا بلكہ زندگى كے مختلف شعبوں ميں اس كى رسائى ہوتى ہے، احترام كے مفہوم ميں جانوروں كا شمار بهى بحيثيت مخلوقات خدا كيا جاتا ہے، ان كے ساتھ برتاؤ ميں رحم اور محبت كا اظہار كيا جانا چاہئے اور بيجا اذيتوں اور زيادتيوں سے اسے محفوظ ركهنا چاہئے، اسى طريقہ سے ماحوليات كا بهى احترام اس طور پر كيا جانا چاہئے كہ اس كو آلوده  اور  خراب نہ كيا جائے كيونكہ مختلف طريقوں سے دنيا كى ديگر مخلوقات اس سے استفاده كرتى ہيں، اسى طريقہ سے وطن كے ساتھ پاكيزه جذبۂ محبت كا احترام ہونا چاہئے، اور اہل وطن كے عادات وثقافات اور معاشره ميں پائے جانے والى مثبت تقاليد كا احترام ہونا چاہيے، يہ ان اعلى اقدار كا مجموعہ ہے جس سے معاشره ترقى كى راه پر گامزن رہتا ہے اور بلنديوں كو چهونے كے قابل ہوتا  ہے.

ان تمام چيزوں سے يہ بات عياں ہوتى ہے كہ جو شخص احترام كى قدر وقيمت كو جانتا ہے اور اس كا پورا حق ادا كرتا ہے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ وه معاشرے كے ان اقدار وعادات كى بهى قدر كرتا ہے، جو انسان كى انفرادى واجتماعى زندگى پر گہرے طور پر اثر انداز ہوتے ہيں، اور اس كے قافلۂ حيات كو ترقى وبرترى كے راه پر گامزن كرتے ہيں، اب ہمارى يہ ذمہ دارى ہے كہ اپنى نوجوان نسل كے انداز معاشرے كے استحكام اور اس كى تعمير وترقى كے ليے بهر پور تعاون كا جذبہ پيدا كريں اور صحيح اقدار كو ان كے ذہن ودماغ ميں راسخ كريں تاكہ وه معاشرے كے مستقبل كے ليے موثر كردار ادا كرسكيں جس ميں ہر فرد خوشى وسعادت مندى كے ساتھ زندگى گزار سكے.

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.