سپريم علما كونسل كا دوسرا بيان

  • | جمعرات, 9 اپریل, 2020
سپريم علما كونسل كا دوسرا بيان

       

  * نقصان اور ضرر واقع ہونے كى صورت ميں لوگوں كو دعاوں اور استغفار كے لئے جمع ہونے كى دعوت ديناشريعتِ الہى كے سرا سر خلاف ہے۔

افواہوں كو پهيلانا اسلامى شريعت كى نظر ميں ايک قابلِ مذمت امر ہے۔
وبا كے اوقات ميں اجاره دارى عام اوقات ميں   اجارہ دارى سے زياده حرام ہے۔
معاشره كے ہر فرد كا قرانطين كے تمام اقدامات پر عمل كرنا لازم ہے۔
 تمام لوگوں پر كرفيو كى وجہ سے لاگو قوانين پر پابندى لازم ہے- جمعہ يا باجماعت نماز كى غرض سےجمع ہونا شرعی احکام کی تعمیل نہیں بلکہ اس کی مخالفت ہے۔
زكاه كو اس كى مقرره تاريخ سے پہلے نكالنا جائزه ہے۔
 

الحمد لله والسلاة والسلام على رسول الله وعلى آلہ وصحبہ ومن والاه، وبعد.

اہلِ علم پر عائد ذمہ دارى كو مدّ نظر ركهتے ہوئے، جس ذمہ دارى كے بارے ميں الله رب العزت ے فرمايا: "لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ" ( کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کردینا اور نہ چھپانا) [سورۂ آل عمران: 187] عالمى كے مطابق كورونا كوويڈ (19) كى وجہ سے دنيا بھر میں ہونے والے نقصانات كے بنا پر سپريمعلما كونسل تمام لوگوں كے لئے درج ذيل امور واضح كرنے كو اپنى شرعى ذمہ دارى سمجهتى ہے۔

مقدمہ

علمائے فقہ كے ہاں يہ بات ثابت ہے كہ اسلامى شريعت كے تمام احكام پانچ مقاصد كى حفاظت كرتى ہيں- اور يہى احكام باقى تمام احكام پر كنٹرول كرتى ہيں- ان كو "پانچ ضروريات" كہا جاتا ہے اور وه ہيں: جان،دين، نسل، مال اور عقل كى حفاظت كرنا۔

تمام آسمانى شريعتوں كے پيروكار اور عقل سليم كا مالک ہر شخص اس كى حفاظت پر متفق ہے۔

جان كى حفاظت كے سلسلہ ميں الله رب العزت كا فرمان ہے "وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (اور اپنے آپکو ہلاکت میں نہ ڈالو) [سورۂ بقره: 195] اور رسول اكرم نے فرمايا: «نہ کوئی نقصان اٹھائے اور نہ نقصانپہنچائے۔» [ابن ماجہ والدار قطنى وغيرهما]۔

كورونا وائرس كے وجہ سے بعض لوگوں كے كچھ افعال شرعى نصوص كے خلاف ہيں- مثال كے طور پر:

• اول: دعاء كرنے اور مغفرت طلب كرنے كى غرض سے ان حالات ميں جمع ہونے كا شرعى حكم۔

الله تعالى كو ياد كرنا يا ذكرِ الہى ہر وقت اور ہر حال ميں؛ خلوت ميں ہو يا جلوت ميں ايک اچهى بات ہے، اللهتعالى نے ہميں اس كو ہميشہ اور بہت زياده ياد ركهنے كا حكم ديا ہے- ارشادِ الہى ہے: "يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوااذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (41) وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا" (اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو (41) اور صبحاور شام اس کی پاکی بیان کرتے رہو) [سورۂ احزاب: 41، 42] ليكن كورونا وائرس كے متعلق تمام ڈاكٹروں كاكہنا ہے كہ يہ وائرس رش اور بهيڑ كى وجہ سے تيزى سے پهيل سكتا ہے۔ اسى لئے مختلف حكومتوں نے ايکجگہ ميں بڑى تعداد ميں لوگوں كے جمع ہونے كے تمام اسباب كى روک تهام كے لئے مختلف اقدامات اٹهائےہیں جن ميں با جماعت نماز كو منع كرنا بهى شامل ہے- كيونكہ اس سے نقصانات واقع ہونے كے امكانات زيادهہو جاتے ہيں۔

الله تعالى نے فرمايا: "وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) [سورۂ بقره: 195] علاوه ازيں وبا كى حالت ميں دعا يا مغفرت مانگنے كى غرض سے جمع ہونے كے بارے ميں كوئى بهىشرعى حكم نہيں ہے- حضرت عمر كے زمانے ميں طاعون كى وبا پهيلى اور آپ نے لوگوں كو  دعا مانگنے كےلئے جمع ہونے كا حكم ہرگز نہ ديا-

• دوم: افواہيں پهيلانا شرعى نقطۂ نظر سے ایک قابلِ مذمت بات ہے؛ كيونكہ يہ ايک غير اخلاقى عمل ہے جوجهوٹ پر مبنى ہے اور لوگوں كى تشويش كا باعث بهى بنتا ہے۔ قرآن پاک نے ان لوگوں كے خطره كے بارے ميںخبردار كيا، ان كو منافق اور ان كے دلوں كو مريض کہا ہے۔

"لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَفِيهَا إِلَّا قَلِيلًا" (اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے (کے شہر میں) بری بریخبریں اُڑایا کرتے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہاں تمہارےپڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن) [سورۂ احزاب: 60]۔

ارشاد الہى ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍفَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ" (مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوبتحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے) [سورۂ حجرات: 6] بغير جانچ پڑتال كے كسى خبر كو پهيلانے كے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا: "وَإِذَاجَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُالَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا" (اور جب ان کےپاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنےسرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کیمہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے) [سورۂ نساء: 83]۔

ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشره كے ہر فرد پر لازم ہے كہ وه كوئى بهى بات مكمل يقين دہانی کئےبغیر  نہ پهيلائے بلكہ منفى يا مثبت خبروں كى اشاعت افيشل اداروں  كے ذمہ ہی  ہے۔

• سوم: وباء كى حالت ميں ذخیرہ اندوزی كا حكم اور لوگوں كى ضرورتوں سے فائده اٹهانے كا حكم۔

ذخیرہ اندوزی كا مطلب ہے كسى ضرورى چيز يا سروس كو فراہم نہ كرنا يہاں تک كہ اس كى قيمت ميں غيرمعمولى اضافہ ہو جائے، جس سے عوام اور حكومت دونوں كو شديد نقصان پہنچنے۔

ذخیرہ اندوزی شرعى نقطۂ نظر ميں حرام ہے حضور كا ارشاد ہے: «کوئی نافرمان اور گناہ گار آدمی ہیذخیرہ اندوزی کر سکتا ہے۔» [رواه مسلم]۔

ذخیرہ اندوزی ايمان الہى كے تقاضوں كے خلاف ہے «جو شخص قیمت بڑھانے کے لیے چالیس روز تک ذخیرہاندوزی کرتا ہے تو وہ اللہ سے لاتعلق ہوا ، اور اللہ تعالیٰ اس سے لاتعلق ہوا»۔

وبائى حالات ميں ذخیرہ اندوزی كر كے، لوگوں كى ضروريات سے غلط فائده اٹهانا عام حالات ميں  ذخیرہاندوزی سے زياده حرام ہے كيونكہ اس سے لوگوں كو خوف اور بد امنى كا شعور ہوتا ہے اور نتيجہ ميںافراتفرى كا عالم پيدا ہو جاتا ہے جس سے معاشره كے ہر فرد كو نقصان پہنچتا ہے اس حالت ميں ملک كىحكومت كا حق بنتا ہے كہ وه ان غير اخلاقى تاجروں كو سخت سزا ديں اور مناسب قيمت پر لوگوں كے لئےچيزيں فراہم كريں۔

ان حالات ميں لوگوں كو فضول خرچى سے دور رہنا چاہیے اور تمام شہريوں كا فرض بنتا ہے كہ وه خريدوفروخت اور كهانے بننے ميں ميانہ روى سے كام ليں۔

• چہارم: وبائى زمانہ ميں قرانطين كا حكم

 وبا كى حالت ميں قرانطين نافذ كرنا كسى بهى ملک کی رياستى اداروں سے منسلک امر ہے، پس آفيشلاداروں كے احكامات پر عمل كرنا اس حالت ميں ہر شہرى پر واجب ہے۔

حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روايت ہے كہ رسول پاک نے طاعون كے بارے ميں فرمايا: «اگر كسى بهىزمين (ملک) ميں اس كے بارے ميں سنا تو وہاں ہرگز مت جاؤ، اور اگر تمہارے ہوتے ہوا (طاعون) ہوا تو اس(زمين/ ملک) كو جهوڑ كر مت بهاگو» اس كى وجہ يہى ہے كہ يہ مرض ايک جگہ سے دوسرى جگہ نہ پهيلے-

تعاليم نبوى كے مطابق وبائى مرض كى حالت ميں بيمار جانور كو صحت مند جانور سے دور ركهنا چاہئیے ہے- بلكہ مريض جانور كے مالک كو صحت مند جانور كے مالک سے دور رہنا لازمى ہے- فرمانِ نبوى ہے «لا يوردممرض على مصح» يعنى كہ "بيمار اونٹ كا مالک صحت مند اونٹ كے مالک سے دور رہے"۔

• پنچم: اسلام ہر قسم كى سلامتى اور بهلائى پر آماده كرتا ہے اور كسى بهى قسم كے نقصان اور ضررسے دور رہنے پر زور ديتا ہے۔

لہذا سركارى احكامات كى خلاف ورزى كر كے بڑى تعداد ميں جمع ہو كر باجماعت نماز پڑهنا شرعى مقاصدكے خلاف ہے اور اس حالت ميں مسجدوں كو نمازيوں كے سامنے كهولنا گناه ہے۔

• ششم: زكاه كو اس كے مقرره وقت سے پہلے نكالنا جائز ہے۔

اسلام معاشرتى يكجہتى کی تمام صورتوں كى حمايت كرتا ہے، اور اگر يہ عام اوقات ميں اس كى تائيد كرتاہے تو ان نازک حالات ميں اس پر مزيد زور ديتا ہے اسى لئے ان حالات ميں يتيموں، بيواوں اور غريبوں كى مددكرنا اور ان كے لئے زكاه كو اپنے مقرره وقت سے پہلے نكالنا جائز ہے۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.