اسلام ميں بچوں كى تعمير شخصيت

  • | هفته, 6 جون, 2020
اسلام ميں بچوں كى تعمير شخصيت

     اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اور ہماری اولاد اس نظام کا جز لا ینفک یعنی اس کا بنیادی حصہ ہیں۔ اولاد کی تربیت ماں اور باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب تک دونوں فریق اپنی اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے نہیں نبھاتے، اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی۔ بعض علما کے نزدیک، دونوں میں باپ کی تربیت ماں کی تربیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

بچوں کی تعلیم وتربیت کا حقیقی آغاز پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو گھروں کے اندر ایک بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے  والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی ہی روشن مثال قائم کی۔ وہ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرمؐ نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ ؐ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اﷲ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ ؐ نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: «جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔» [صحیح بخاری]

اللہ رب العزت نے فرمایا (المال والبنون زينة الحياة الدنيا) ترجمہ: مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ ہماری اولاد ہی ہمارا سرمایہ ہیں، ان میں ہمیں اپنا کل نظر آتا ہے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارومدار اسی جدید نسل پر منحصر ہے۔    جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی تمام تر سرگرمیاں ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنی اولاد ہوتی ہے۔ والدین کا باہمی پیار اور محبت، خیال اور تحفظ ہی بچے کے پھلنے پھولنے کا ضامن ہوتا ہے۔ جب بچہ ٹین ایج کی عمر کو پہنچتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اسکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس عمر میں ان کے دوست بنیں اور انہیں صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔

بچّوں کی شخصیت پر گھر کے ماحول کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔ بچّے کی شخصیت کی تعمیر میں باپ اور دیگر قریبی رشتے دار بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے درمیانی طبقے میں خاندانی نظام آج بھی بڑی حد تک موثر ہے اوراچھے اخلاقی  اقدار آج بھی وہاں نظرآتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ سارا معاشرہ خرابی کی طرف جارہا ہے،درست نہیں ۔

رزقِ حلال بچوں کی تربیت میں بہت معاون ہوتا ہے۔ ہمیں بچوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اچھے اور برے کی پہچان لازمًا بتانا ہوگی۔ ان تمام باتوں پر عمل کرکے ہی ہم خود کو اچھے والدین ثابت کرسکتے ہیں اور اچھا اور برائیوں سے پاک معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور روازنہ نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔ اور یاد رکھا جائے کہ ہماری اولاد اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں، اور امانت میں خیانت کرنا مرد مومن کا شیوہ ہرگز نہیں ہے۔

  •  
Print
Categories: ہوم
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.