وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ!! (اور ملك میں خرابی نہ کرنا)

  • | جمعه, 14 اگست, 2020
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ!!  (اور ملك  میں خرابی نہ کرنا)

 

        زندگى ايك نعمت ہے، اس كى حفاظت كے لئے او ر اس كرۂ ارض پر   ايك معزز اور مكرم طريقہ سے رہنے كے لئے الله رب العزت نے كچھ اصول وضوابط مقرر كئے۔ يہ اصول وضوابط الله سبحانہ وتعالى نے اپنے رسولوں كے ذريعہ اہل زمين تك پہنچائے۔ ايك كامل زندگى كے تمام پہلوؤں كو مدّ نظر ركهنے والا دين اسلام ہى ہے، جس نے بنى آدم يعنى آدم كى اولاد كو عزت بخشى اور ساتھ ساتھ اس كو بہت سى وصيتيں بهى ديں جس ميں سرفہرست زمين پر فسادات  پهيلانے كى ممانعت اور ا يسا كرنے والے كو شديد سزا كا مستحق قرار ديا۔ افسوس ہے كہ آج كل فسادات، خوف، قتل (چاہے وه مذہب كے نام پرہو يا طاقت كے نام پر) ظلم اور غارت گرى بہت عام ہو چكى ہے۔

كورونا وائرس كے نتيجہ ميں ہونے والى وبا نے تمام دنيا كے لوگوں كو ايك انمول سبق دياكہ ہم تمام بنى نوع انسان ايك ہى كشتى ميں ہيں اور جب يہ كشتى ڈوبے گى تو اس پر سوار تمام لوگوں كا انجام ايك ہى ہو گا، اسى لئے اس كو امن وسلامتى سے كنارے پر پہنچانے كے لئے متحد ہونے ہى ميں ہمارى بهلائى ہے۔اس مفہوم اور كرۂ ارض كى تعمير اور اس پر فسادات نہ پهيلانے پر ہمارے دينِ حنيف  نے ہميشہ سے تاكيد كى ہے۔

ارشاد بارى ہے: "وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ" (اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا   فساد( فتنہ انگیزی)  کو پسند نہیں کرتا)  [سورۂ بقره: 205]۔

        الله تعالى نے متعدد مقامات پر فساد مچانے والوں كى مذمت كى اور اس كو مچانے كى شديد ممانعت كى۔

"وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ" (اور جیسی خدا نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا) [سورۂ قصص: 77]

مزيد فرمايا: "وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ" (اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے) [سورۂ اعراف: 56]۔

اسلام ناحق كسى معصوم كے قتل كوسارى انسانيت كا قتل تصور كرتا ہے "مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ" (اس کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں) [سورۂ مائده: 32]۔

        عدل وانصاف اور امن وسلامتى برقرار ركهنے كے لئے اور فرقہ وارانہ فسادات سے معاشروں كو محفوظ ركهنے كے لئے رسول اللهؐ نے فرمايا: "أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" (خبردار! جس كسى نے كسى معاہد (عہد وامان كے ساتھ اسلامى حكومت ميں رہنے والے) پر ظلم كيا، يا اس كا حق مارا، يا اس پر طاقت سے زياده بوچھ ڈالا، يا اس كى مرضى كے بغير اس سے كوئى  چيز چهين لى تو قيامت كے روز ميں اس (مظلوم معاہد) كى تائيد ميں (ظالم مسلمان) كے خلاف رہوں گا۔)۔

يہ تو اہل كتاب  كى بات ہوئى، ليكن اسلام نے تو مشركين كو پناه دينے كى  بهى تاكيد كى- سورۂ توبہ ميں ارشاد بارى ہے "وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ" (اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو۔ اس لیے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں) [سورۂ توبہ: 6]۔

صحابۂ كرام ميں اسماء بنت ابو بكر اپنى مشرك ماں اور حضرت عمر اپنے مشرك بهائى كے ساتھ صلۂ رحمى اور حسن سلوك كيا كرتے تهے [صحيح بخارى بروايت عبد الله بن عمر]۔

نہ صرف انسانوں پر (كافر ہوں يا مسلمان) بلكہ اسلام نے جانوروں پر بهى زيادتى سے ممانعت كى ہے، يہاں تك كہ بلّى جيسے جانور پر زيادتى كى وجہ سے جہنم رسيد ہونے كى دهمكى سنائى ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہؐ نے فرمایا: «ایک عورت بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگئی ، اس نے اس بلی کو باندھ کر رکھا ، اس کو نہ کھلایا اور نہ پلایا ، اور نہ اس کو آزاد کیا تاکہ وہ حشرات الارض کو کھالیتی ، یہاں تک کہ وہ بلی کمزوری سے مرگئی»

مسلمان جس رب پر ايمان لاتے ہيں، وه رحمن ورحيم، بلكہ ارحم الراحمين ہے اور جس نبى پر وه ايمان لائے وه تمام جہانوں كے لئے رحمت ہيں جنہوں نے مشركين كے لئے بددعا كرنے كى درخواست پر كہا «مجهے لعنت بهيجنے والا بنا كر نہيں بلكہ رحمت بنا كر بهيجا گيا ہے» [صحيح مسلم بروايت ابو ہريره]

مسلمانوں كا قبلہ امن كا گہواره  ہے، مسلمانوں كا مقدس شہر "البلد الأمين" مسلمانوں كى نمازوں ميں سلامتى كى دعائيں "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين" مسلمانوں كى ملاقاتوں ميں رحمت اور امن وسلامتى كى دعائيں۔

مسلمان وه ہے جو اپنے ہر قول اور فعل ميں اسلام كى تطبيق كرے۔ فسادات نہ مچائے اور يہ جان لے كہ وه اس دنيا ميں ايك اچها اثر ترك كرنے كے لئے پيدا ہوا ہے۔ اس كا فرض  زندگى كو سدهارنا ہے ، اس كو بگاڑنا نہيں...

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.