مذہبى آزادى

  • | منگل, 13 اکتوبر, 2020
مذہبى آزادى

 

اپنے مذہب اختيار كرنے كا حق انسان كا اولين حق ہے۔ ڈاكٹر سعيد كامل معوض كہتے ہيں كہ "اسلام ميں اپنا عقيده (اختيار كرنے) كى آزادى تمام آزاديوں كى ماں ہے-" اسلام كى نظر ميں "دين" ايك بہت ہى ضرورى مقصد ہے اور مذہبى آزادى كا تعلق دراصل عقل اور سوچ سے ہے- عقيده اور ايمان كا مركز دل ہے اور انسان كے دل پر الله رب العزت كےعلاوه كسى كا اختيار نہيں ہے۔ يہى وجہ ہے كہ اسلام نے عقيده اور مذہب كے اختيار ميں مكمل آزادى دى ہے۔
    فرمان الہى ہے: "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ" (دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے) [سورۂ بقره: 256] اس آيت ميں حسنِ اختيار پر تاكيد كى گئى ہے اور  اس بات پر بهى كہ انسان كو خود اپنے اس اختيار كى ذمہ دارى اٹهانى ہو گى، اسى آيت كے آخر ميں الله سبحانہ وتعالى تاكيد كرتے ہيں كہ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ" (تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے) [سورۂ بقره: 256]
ارشاد بارى ہے "وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ" (اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں) [سورۂ يونس: 99] دراصل زبردستى كا مطلب انسان كے عقل، اراده اور اختيار كرنے كى قدرت كو ختم كر دينا ہے، اور يہى زبردستى فساد، قتل اور ظلم كے دروازے بهى كهول ديتى ہے۔
رسول الله سے مخاطب ہوتے ہوئے الله سبحانہ وتعالى فرماتے ہيں: "إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ" ((اے محمدﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے) [سورۂ قصص: 56] اور يہ بهى فرمايا: "نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ" (یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ پس جو ہمارے (عذاب کی) وعید سے ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو) [سورۂ ق: 45]
قرآن پاك نے صحيح دين كو واضح كيا اور پهر انسان كو اختيار كرنے كى مكمل آزادى دى، ليكن اسے يہ بهى ضرور كہا كہ جو الله كے اس آخرى دين كى تعليمات كى پيروى نہيں كرے گا وه دراصل اپنے آپ پر ظلم كرے گا۔
ارشاد تعالى ہے: "وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ " (اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔) [سورۂ كہف: 29]
حضور پاك نے بهى مذہبى آزادى پر تاكيد كى اور فرمايا: «كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه، أو ينصرانه، أو يمجسانه» "ہر مولود (يعنى پيدا ہونے والا بچہ) فطرت پر پيدا ہوتا ہے، اور اس كے والدين ہى اسے يہودى، نصرانى يا مجوسى بناتےہيں" ۔ "فطرت" دين حق اور خالقِ حقيقى كو جاننے كى ايك  ذاتى رغبت ہے جو  ہر انسان ميں اس كى پيدائش كے وقت سے ہى موجود ہوتى ہے۔وه اس كائنات كے خالق كى تلاش ميں روز اول سے ہى مصروف رہتا ہے۔ پس اگر انسان فطرت كے دين پر رہا،  يا اگر اس كے والدين مسلمان تهے، اس نے دينِ حق كا  اختيار سوچ اور تدبر كے بعد كيا تو اس كا يہ حق محفوظ ہو گا،  اور اس كے ملكى قوانين كو اس كو مكمل آزادى دينى چاہے۔
اسلام ميں مذہبى آزادى كى اہميت اس بات سے واضح ہوتى ہے كہ عقيده ميں مختلف ہونے كا مطلب اس شخص كى مخالفت كرنا ہرگز نہيں ہے۔ 
تفسير ابن كثير ميں آيا ہے كہ "كسى كو اسلام ميں زبردستى مت داخل كرو، كيونكہ اس كے ثبوت ودلائل واضح اور صاف ہيں، وه زبردستى كا محتاج نہيں ہے بلكہ جس كو الله تعالى اسلام كى طرف ہدايت ديتا ہے، اور اس كو دل كو اس كى طرف مائل كرتا ہے اور اس كى بصيرت كور وشن كرتا ہے تو وه اس ميں بسہولت داخل ہو جاتا ہے" [تفسير ابن كثيرر: 7/ 30]
"لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ " (دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے) كى ہدايت كے سبب نزول ميں بيان كيا جاتا ہے كہ "بنى سالم بن عوف كے (قبيلہ) ايك شخص كے دو بيٹے تهے جو رسول كى بعثت سے پہلے عيسائيت ميں داخل ہو چلے تهے۔ ايك دن وه عيسائيوں كے ايك گروه كے ساتھ مدينہ منوره آئے تو اُن كے باپ نے انهيں كہا: "ميں تمہيں جانے نہيں دوں گا جب تك تم اسلام نہ لے آو" انہوں نے انكار كر ديا اور رسول پاك كے پاس گئے، باپ نے كہا: يا رسول الله، كيا ميرا ايك حصہ (يعنى ميرے بيٹے) دوزخ چلے جائيں اور ميں انهيں ديكهتا ہى رہوں!؟" اس موقعہ پر يہ آيت نازل ہوئى: "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ" (دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے)  [سورۂ بقره: 256] اور ان كو رہا كر ديا گيا۔
"التفسير المنير" ميں بيان  كيا گيا ہے كہ يہ آيت اسلام كے ستونوں ميں سے ايك ہے، اور اس كى سياست اور منہج كا ايك عظيم ركن ہے پس اسلام كسى كو اس ميں داخل ہونے پر مجبور نہيں كرنا۔ يہ آيت مباركہ ايمان وہدايت، حق وباطل كے فرق كو واضح كر كے بيان كرتى ہے كہ اسلام ہى دين حق ہے اور كفر كے تمام قسميں باطل ہيں۔ 
قرآن پاك ميں الله تعالى حضور پاك سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے "فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ، لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ"  (تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو (21) تم ان پر داروغہ نہیں ہو) [سورۂ غاشيہ: 21، 22] 
اور يہ بهى فرمايا "فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ" (تو (اے محمدﷺ) اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہنا اور جیسا تم کو حکم ہوا ہے (اسی پر) قائم رہنا۔ اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ اور کہہ دو کہ جو کتاب خدا نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں۔ خدا ہی ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے۔ ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال کا۔ ہم میں اور تم میں کچھ بحث وتکرار نہیں۔ خدا ہم (سب) کو اکھٹا کرے گا۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے)  [سورۂ شورى: 15] 
اسلام ميں مذہبى آزادى كى ايك اور دليل دوسرے مذاہب كى عبادت گاہوں كا احترام ہے۔ جنگ اور امن؛ دونوں كى حالت ميں غير مسلمانوں كى عبادت گاہوں پر حملہ كرنا يا ان كو كسى بهى قسم كا نقصان پہنچانا حرام ہے۔ تاريخ اسلامى كے تمام معاہدے اس بات كا ثبوت ہے- اہلِ بيت المقدس كے ساتھ "الوثيقۃ العمريہ" كا معاہده بهى اس امر كى تاكيد كرتا ہے۔  الله رب العزت نےہر انسان كو آزاد پيدا كيا ہے،  اور  ساتھ ہى اسے عقل اور شعور كى نعمت سے بهى نوازا ہے.  اسلام نے اس آزادى اور انسانى عقل كا نہايت احترام كيا ہے اور  موضوع ميں  بيان كرده آيات  بهى  اسى بات كى تاكيد كرتےہيں كہ  مذہبى آزادى ہى ايمان كى بنياد  اور اس كى قوت كا مصدر ہے ۔
 
Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.