لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد !

  • | بدھ, 13 جنوری, 2021
لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد !

 

     قدرتی آفات اور خواتین پر تشدد کی اعلی شرحوں کے مابین قریبی وابستگی کسی ایک ملک سے منفرد نہیں ہے۔ لیکن یہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں موجود ہے۔ اس موضوع پر تحقیقات کا مطالعہ کرنے كے بعد   ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 2004ء میں بحر ہند میں سونامی کے بعد گھریلو تشدد کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوا تھا۔ جاپان میں بهى 1997 ء اور 2010ء میں زلزلے کے بعد خواتین کے خلاف جنسی اور جسمانی تشدد  كى ايك شديد لہر دوڑى تهى ،  اسى طرح یوگنڈا میں بهى  وقفے وقفے سے اور طویل خشک سالی کے دوران بچيوں کی شادی اور خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا۔  اور امريكہ میں 2005ء میں" کترینہ" کے سمندری طوفان کے بعد پارکوں میں بے گھر ہونے والی خواتین میں عصمت دری کی شرح 2004ء کی نسبت 53.6 فیصد زیادہ تھی۔ اور ابهى کورونا وائرس کے پھیلاؤ  سے نمٹنے کیلئے روک تھام اور احتياطى تدابير کے اعلان کے بعد سے متعدد ممالک کی ابتدائی اطلاعات کے پیش نظر جو خواتین پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہے ہیں، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں گھریلو تشدد کے واقعات  ميں واضح اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران  ہندوستان بھر میں خواتین کے خلاف پرتشدد جرائم میں اضافہ ہوا ہے، اس لئے کہ قومی کمیشن برائے خواتین کو 2020ء میں خواتین پر تشدد سے متعلق (23722) شکایات موصول ہوئی ہیں، جو پچھلے چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کل شکایات کا ایک چوتھائی حصہ  گھریلو تشدد سے متعلق تھا۔ رپورٹ كے مطابق  اتر پردیش میں سب سے زیادہ (11872) شکایات تھیں۔ اس کے بعد دہلی سے (2635)، ہریانہ سے (1266) اور مہاراشٹرا سے (1188) شکایات سامنے آئی ہیں۔ کل (23722) شکایات میں سے (7708) شکایات احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کی دفعات سے متعلق تھیں، جن میں خواتین کو جذباتی طور پر ہراساں کرنے کے معاملات دیکھے جاتے ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کل (5294) شکایات گھریلو تشدد سے متعلق ہیں۔ کمیشن کی چیئرمین" ریکھا شرما" نے کہا کہ 2020ء میں معاشی عدم تحفظ، بڑھتی ہوئی کشیدگی، مالی پریشانیوں اور دیگر خدشات جیسے والدین اور کنبہ سے جذباتی تعاون نہ حاصل کرنا گھریلو تشدد کا سبب بن سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گھر شوہر اور بیوی دونوں کے لئے کام کرنے کا مقام اور بچوں کے لئے اسکول کالج بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں خواتین بھی ایک ہی جگہ سے گھربھی سنبھال رہی ہیں اور پیشہ ور بھی ہیں لیکن اس سال خواتین کے لئے سب سے بڑا چیلنج نہ صرف ان حالات کے ساتھ جاری رکھنا ہے، بلکہ اس غیر متوقع صورتحال میں بھی آگے بڑھنا ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق  مارچ میں کمیشن کو گھریلو تشدد کی بہت سی شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں کووڈ 19 کی وبا کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن میں خواتین کو گھر میں ہراساں کرنے والوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اس رجحان میں نہ صرف مارچ  كے مہينہ میں اضافہ ہوتا رہا بلکہ اگلے چند مہینوں میں اور جولائی میں بھی اس سلسلے میں (660) شکایات موصول ہوئیں۔ "شرما"  نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد کے شکار افراد کو ایسے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی جو ایسے اوقات میں ان کی حمایت کرتے تھے۔انہوں نے کہاکہ گھریلو تشدد سے خواتین تحفظ ایکٹ کے تحت مکانات کو لاک ڈاؤن میں لازمی خدمات کے طور پر شناخت نہیں کی گئی تھی اور اسی وجہ سے سیکیورٹی افسران اور غیر سرکاری تنظیمیں متاثرہ افراد کے گھر نہیں جاسکیں۔وہیں پولیس افسران کووڈ(19) سے نمٹنے کے لئے بہت سارے کام انجام دے چکے تھے۔اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے بارے میں پولیس کی لاپرواہی کی (1276) شکایات اور سائبر جرائم سے متعلق (704) شکایات موصول ہوئیں۔ اسی دوران عصمت دری یا عصمت دری کی کوششوں کی (1234) شکایات موصول ہوئیں، جبکہ سن 2020ء میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی (376) شکایات موصول ہوئی تھیں۔ شرما نے خواتین سے اپیل کی کہ جب بھی ضرورت ہو وہ قومی کمیشن برائے خواتین سے رابطہ کریں۔ اسى لئے  قومی خواتین کمیشن نے لاک ڈاؤن کے بعد سے گھریلو تشدد معاملات سے منسلک شکایات میں اضافہ کے پیش نظر اب ایسی خواتین کی مدد کے لئے ایک وہاٹس ایپ نمبر جاری کیا ہے۔کمیشن نے ٹویٹ کے ذریعے یہ معلومات دی کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے گھریلو تشدد کا سامنا کر نے والى خواتین (7217735372) نمبر پر اپنی شکایت بھیج سکتی ہیں۔ قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے كہا  کیس اور زیادہ ہوں گے، لیکن بہت سے شکایت ہی نہیں کرتی ہوں گی کیونکہ اس دوران مارپیٹ کرنیوالا ان کے سامنے ہی رہتا ہوگا۔ کئی خواتین اس لئے بھی شکایت نہیں کرتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر کو پولیس لے گئی تو ساس سسر  اس کو طعنے دیں گے۔ اس كے علاوه  بهى   لاک ڈاؤن کے سبب ملک میں طلاق کے معاملات بڑھنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ "وكيل دیشمکھ"  کا کہنا ہے کہ طلاق کی وجوہات بھی معمولی ہیں، جیسے اے سی سوئچ بند کیوں کیا!؟ گھروں میں ایک ساتھ قید رہنے کے سبب بہت سے لوگوں کے پہلے سے ہی خراب چل رہے تعلقات ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔آن لائن لیگل پلیٹ فارم کے بانی "اکشت سنگھل" کہتے ہیں کہ چین میں کوارٹین کے دوران طلاق کے معاملے بڑھے تھے، لیکن ہندوستان میں جنتا کرفیو کے بعد سے اس طرح کے معاملات میں تین گنا اضافہ نے فکر میں ڈال دیا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ گھریلو تشدد ہے۔کام اور پیسوں کی فکر کی وجہ سے لوگ کشیدگی میں ہیں، خاص طور پر چھوٹے کاروبار کے مالک اور ملازمین. اسى لئے گھریلو تشدد کے متاثرین کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے كئى مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
قدرتی آفات اور وبائی امراض کے دوران دنیا بھر میں خواتین کی یہی حالت ہے جو ہمیشہ سے خواتین پر ہونے والے تشدد کی اعلی شرح سے وابستہ ہے۔ عام طور پر دنيا کے کچھ ممالک میں اور خاص طور پر ہندوستان ميں خواتین کے خلاف تشدد کی فائل کے اس مختصر دورے کے بعد يہ كہا جاسكتا ہے کہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لئے تمام احتیاطی تدابیر اپنانا  از حد لازمى ہے  ۔  اور یہ بهى کورونا وبا کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے متوازی ہے۔ علاوه ازيں  مرد  پر لازمى ہے کہ  وه  يہ اچهى طرح جان لے كہ اس كى بيوى بچے اس كے ہاں ايك امانت ہيں اور امانت ميں خيانت كرنا مردوں كا شيوه نہيں ہے. ہر بهائى كو اپنى بہن كا حامى بننا  چاہئے، ہر بيٹے كو اپنے والدين كى عزت  فرض سمجهنى چاہئے، ہر باپ كو  اپنى اولاد كى ہر ضرر اور نقصان  سے حفاظت كرنى چاہئے، ياد رہے كہ نفسياتى نقصان كبهى كبهى جسمانى نقصان سے زياده تكليف ده ہوتا ہے.مردانگی ايك اعلى صفت ہے جو دوسروں اور خاص طور پر  خواتین کے احترام اور تحفظ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہےحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: (تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں)۔  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں سے خیر خواہی کرو" . اس مختصر سے مقالے ميں بيان گئے نتائج  محض بعض نمبر يا ہندسے نہيں ہيں، بلكہ يہ ہر ذى عقل اور ذى شعور انسان كو جهنجهوڑنے كے لئے كافى ہيں! اپنے سے كمزور شخص كو اذيت  دے كر اپنى قوت كا ثبوت دينا يا اس كو اپنے غصہ اور تشدد كا شكار بنانا ايك خوفناك امر ہے جو ايك پر امن زندگى كو تباه كرنے كے لئے كافى ہے  اور جس كى تمام مذاہب ميں شديد مذمت كى گئى ہے. الله رب العزت سے دعا  ہے كہ كورونا وائرس ہمارے دل اور شعور پر منفى اثر ركهنے كے بجائے ہميں پروردگار اعلى كى نعمتوں كى ياد دلائے  اور اس كى حفاظت كرنے پر اجاگر كرے . ديگر نعمتوں كى طرح ہمارے اہل وعيال بهى ايك نعمت ہيں " اور تم اپنے رب كى كن كن نعمتوں كو جهٹلاو گے !!"   
 
Print
Tags:
Rate this article:
3.0

Please login or register to post comments.