اسلام میں مذہبی آزادی

(قرآن مجید کی روشنی میں)

  • | منگل, 19 جنوری, 2021
اسلام میں مذہبی آزادی

 

اسلام میں "عقیدہ کی آزادی"  کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی اعتقاد کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اور کسی اعتقاد کی وجہ سے اسے نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے جس پر وہ یقین رکھتا  ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ : "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ" [البقرة: 256] (دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا ۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اوراﷲ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔)

عقیدہ کی آزادی اہم  ترين انسانی حقوق ميں سے ايك  ہے جس کا اسلام نے اقرار  کیا ہے ، اور قرآن کریم کی بہت سی اور مختلف نصوص کسی شخص کے اس عقیدے کو قبول کرنے کے حق کی تصدیق کرتی  ہیں جس میں اس کا دل مطمئن ہو، کیونکہ  اللہ تعالٰی  نےانسان کو ایمان اور کفر کے درمیان بھی انتخاب کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ : "فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ" [الكهف: 29] (اب جو چاہے، ایمان لے آئے، اور جو چاہے کفر اِختیار کرے۔)  اور خدا تعالی  اپنے  رسول ﷺ  کو بھی یہی ہدایت دیتے ہیں کہ جب  حق اور بھلائی کا راستہ واضح ہو جائے تو عقیدہ کا انتخاب کرنے کی آزادی کو اس شخص پر چھوڑ دیا جائے اور وہ فرماتے ہیں کہ : "أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ" [يونس: 99] (پھر کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں۔)

اسلام آزادی اعتقاد كو انسانی عقل و ضمیر کے لئے احترام کے اعلی درجے اور قدر کی نگاہ سے ديكهتا  ہے ، خدا نے انسان کو ایک ایسی عقل سے نوازا ہے   جو حق اور باطل کے مابین فرق کرنے كے قابل  ہے اور اسے خدا کو قبول کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے ، اور ایمان اور کفر کے درمیان بھی انتخاب کرنے کی آزادی عطا کرتی  ہے ، آزادی غلامی کے برعکس ہے ، کیونکہ انسان ہمیشہ انتخاب کی حیثیت میں رہتا ہے۔  لہذا وہ اپنے کاموں کا  خود ذمہ دار ہے ، اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا بھی وہُ خود ذمہ دار ہے : "مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا" [فصلت 46]  )جو کوئی نیک عمل کرتا ہے، وہ اپنے ہی فائدے کیلئے کرتا ہے، اور جو کوئی بُرائی کرتا ہے، وہ اپنے ہی نقصان کیلئے کرتا ہے (۔اور اسلام میں مذہبی آزادی کی توثیق کا مطلب مذہبی تعدد کو تسلیم کرنا ہے۔

اسلام فکر و یقین کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔  بلکہ خدا نے اسے  مومنوں پر ایک تکلیفی حکم کے طور پر فرض  فرمایا ہے، اس نے سب سے پہلے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ   کو انسانیت کے بارے میں اس  نئے اصول کی تعلیم دینا  شروع کی تاکہ اس کا ایمان  پر قائم رہنے کا حرص اسے  لوگوں کو زبردستی پکڑ کر  انھیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کرے  ،  جسے اسلام کلی طور پر  مسترد کرتا ہے ، لہذا  رضا مندی کے بغیر  زور زبردستی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کو اسلام  منافقت تصور کرتا ہے ، اور اسلام میں منافقت کو سراسر کفر سمجھا جاتا ہے ، اور اسی وجہ سے اسلام کی دعوت رضامندی اور خوشنودی  پر مبنی ہے۔

بے شک اسلامی مؤقف واضح اور مضبوط تھا جو ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ جو چاہے عقائد اپنائے، اور اپنے لئے جو افکار چاہے اختیار کرے حتی کہ اگر اس کے عقائد ملحدانہ ہیں تب بھی کوئی شخص اسے نہیں روک سکتا جب تک اس کے یہ افکار و خیالات اسکی اپنی ذات کی حد تک ہوں اور وہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ لیکن اگر وہ ایسے خیالات کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے جو لوگوں کے اعتقادات کے منافی اور ان کی ایسی اقدار سے متصادم ہوں جنہیں وہ عزیز رکھتے ہیں تب وہ لوگوں کے دلوں میں شک کا فتنہ پیدا کرکے ملک کی عمومی نظم و ضبط پر حملہ آور ہوتا ہے۔

اور جو بھی شخص کسی بھی قوم میں ریاست کے عمومی نظم و ضبط پہ حملہ کرتا ہے تو اسے سزا دی جائے گی جو بیشتر ممالک میں قتل ہے چنانچہ اسلامی قوانین میں مرتد کی سزا اس لئے نہیں کہ وہ مرتد ہوا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس نے اسلامی ریاست میں عمومی نظم و ضبط(قوانین)کو توڑتے ہوئے فتنہ و انتشار بپا کیا ہے۔ لیکن اگر وہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کئے اور پھیلائے بنا خود ذاتی طور پر مرتد ہو جا‏ئے تو کوئی بھی شخص اس کے ساتھ برا نہیں کر سکتا، صرف اللہ تعالی ہی ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے.

اسلام متشدد گروہوں کو مسترد کرتا ہے جو لوگوں کو اسلام پہ مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلام نے اپنے کسی مبلغ کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ لوگوں کو فرض کی ادائیگی پر مجبور کرے اور نہ ہی دینی فرائض میں کوتاہی پہ کسی شخص کو سزا دینے کا حق ہے۔ لہذا کچھ افراد جو دینی امور میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں بعض مذہبی لوگ شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے دائرے سے ہی خارج کر دیتے ہیں۔

چنانچہ اس قسم کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ جان لیں کہ اللہ کے حضور سب لوگ برابر ہیں اور تقوی اور عمل صالح کے سوا کسی ایک کو دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں ہے، مذہب ایک داخلی یقین ہے جو بیرونی دباؤ یا جبر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مذہب میں جبر اور زبردستى  سے "مومن" نہیں بلکہ "منافق" پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی كو منافقوں کے نفاق کی ضرورت نہیں چنانچہ اسلام نے آزادئ عقائد کے اصول میں تاکید کی خاطر اسے قرآنی نصوص میں بیان فرمایا کہ لوگوں کے عقائد پر کسی انسان کو اختیار نہیں دیا گیا ہے حتی کہ رسول الله ﷺ کو بھی لوگوں کے عقائد کے بارے میں اختیار نہیں ہے۔

اس بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوا: "مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ" [المائدة: 99] (رسول پر سوائے تبلیغ کرنے کے کوئی اور زمہ داری نہیں ہے)

پھر ایک اور جگہ فرمایا: " لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ" [الغاشية: 22]  (آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لئے  مسلط نہیں کیا گیا۔)

الله رب العزت نے اپنے نبی رسول  ﷺ کو تمام لوگوں کے لئے بطور رہنما بھیجا  ہے اور ان پر قرآن کریم نازل کیا ہے جو ہر طرح کی رواداری اور ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہر طرح کی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کو رد کرتا ہے۔  اسلام اعتدال پسندی کا مذہب ہے ، جس کی تعلیمات مذہب اور اعتقاد کے معاملات میں ہر طرح کے غلو  اور انتہا پسندی کی مخالفت کرنے میں واضح ہیں، اور قرآن پاک نے اس آزادی کے تعین میں اعلی معیار  کا مظاہرہ کیا ہے، اور مسلمانوں پر یہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین   کے اعتقادات کا احترام کریں ۔  بلکہ اس نے مسلمانوں کو سابقہ تمام آسمانی ادیان پر ایمان رکھنے کا پابند بنایا ہے، اور اسے مسلمان کے اعتقاد کا لازمی جز  بنا دیا۔

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
1.0

Please login or register to post comments.