بيٹى كى حسنِ تربيت، روزى اورخير وبهلائى كا ذريعہ

  • | منگل, 9 مارچ, 2021
بيٹى  كى حسنِ تربيت، روزى اورخير وبهلائى كا ذريعہ


جاہليت كے زمانے ميں لوگ  لڑکیوں سے نفرت كيا کرتے تھے، ان کا خيال تها کہ وہ روزى اور خير کی کمی کا سبب ہیں۔ البتہ اسلام نے ان كے اس باطل عقیدہ کو کالعدم قرار دیا، اور اس كى پيدائش سے لے كر اس كى وفات تك اس كے ايسے حقوق مقرر كئے جسے كسى بهى مذہب يا معاشره نے پہلے نہ ديے تهے  اور اس بات كى تاكيد كى كہ اولاد؛ بيٹا ہو يا بيٹى الله رب العزت كى طرف سے ايك عظيم نعمت ہيں اور نعمت كى حفاظت فرض ہے نفل  نہيں ۔
مصر اور دنيائے عرب كا ایک مشہور قول ہے کہ (لڑکیاں وسيع رزق كا سبب ہوتى ہيں ) اس قول كى تاييد كرنے كے لئے كسى كے پاس ٹهوس ثبوت تو نہيں ہے، لیکن اسلامى شریعت نے قرآن اور سنت كے ذريعہ اس بات کى طرف بار بار اشاره كيا ہے کہ لڑکیاں خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہیں ، اور درج ذيل آيتِ كريمہ ميں لڑكيوں كا ذكر لڑكوں سے پہلےآيا  ہے ،  فرمانِ الہى ہے  "للَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ" (الشورى: 49) "سارے آسمانوں اور زمين كى سلطنت الله ہی کی ہے، وه جو چاہتا ہے  پيدا كرتا ہے، وه جس كو چاہتا ہے لڑكياں ديتا ہے اور جس كو چاہتا ہے لڑکے ديتا ہے"۔
جس كو خدا نے بیٹیوں سے نوازا ، تو يقينًا اس نے اسے بہت زیادہ رزق دیا ہے، لہذا اس كو الله تعالى كا شكر ادا كرنا چاہئے ، اور اس کے رزق پر راضی اور خوش ہونا چاہئے، وسیع تر رزق وہ ہے جو خدا اپنے بندہ كيلئے آخرت میں مہیا کرتا ہے، اس سلسلہ ميں بہت ساری احادیث نبويہ ہیں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’میرے پاس ایک عورت آئی جو اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے تھی۔ وہ مجھ سے کچھ مانگنے آئی تھی مگر میرے پاس اس وقت ایک کھجور کے سوا کچھ بھی نہ تھا چنانچہ میں نے وہی کھجور اٹھا کر اس کو دے دیا۔ اس نے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور اپنی دونوں بچیوں کو آدھا آدھا بانٹ دیا، خود اس نے چکھا بھی نہیں۔۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس عورت کا سارا قصہ سنایا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’جس کسی کو بھی لڑکیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی‘‘۔ (بخاری و مسلم(
یہ حدیث مومن والدین کو ایک ایسا طاقتور محرک دیتی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں والدین لڑکی کی پرورش و کفالت کو بوجھ نہیں بلکہ اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھیں گے اور اس کمزور صِنف کو معاشرہ میں عظمت واحترام کا وہ حقیقی مقام حاصل ہو گا جس کی یہ حقیقت میں مستحق ہے۔ 
حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دو لڑکیوں کو ان  کے جوان ہونے تک پالے، تو  قیامت کے دن، میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا (یعنی میرا اس کا ساتھ ہو گا قیامت کے دن)۔ (صحيح مسلم).
حضرت  عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی“۔ (سنن ابن ماجہ).
لڑکیوں کی پرورش اور کفالت پر اس قدر زور، مختلف موقعوں پر اس کی ترغیب اور اس قدر عظیم صلے کی بشارت دینے کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں انسانی سماج لڑکیوں کے سلسلے میں ناانصافی اور زیادتی کرتا رہا ہے اور اسلام اس ظلم و ناانصافی کو یکسر ختم کرنا چاہتا ہے۔لڑکا چونکہ زندگی بھر بالعموم ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے، زندگی بھر اس سے خدمت و تعاون کی امید رہتی ہے، وہ باپ کا قوت ِ بازو اور خاندان کی شان و عظمت کا ذریعہ ہوتا ہے،  کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس سے گھر کے مال و دولت میں اضافہ کی امید ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی پرورش و کفالت زیادہ شوق اور چاو سے کی جاتی ہے اور وہ نسبتاً زیادہ پیار ومحبت کا مرکز رہتا ہے اس کے برخلاف لڑکی سے نہ خدمت و تعاون کی امید ہوتی ہے نہ دولت میں اضافے کی- وہ جونہی ذرا ہوشیار ہو کر کچھ کرنے کے لائق بنتی ہے، دوسرے کے گھر کی رونق بن جاتی ہے اور والدین کے گھر کی دولت میں اضافہ کے بجائے عام حالات میں کچھ کمی کر کے ہی رخصت ہوتی ہے، اس لیے گھر میں اسے وہ اہمیت و عظمت حاصل نہیں ہوتی جو لڑکے کو حاصل ہوتی ہے-
یہ احادیث شریفہ اسلامی معاشرہ کو ایک دوسرے انداز سے سوچنے کی ترغیب دیتی ہے، اور اس بات كى طرف متوجہ کرتی ہے کہ مومن کی منزل گھر کی رونق کو بڑھانا اور صرف مادی انداز میں سوچنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی آخری منزل اور منتہائے مقصود آخرت کی فلاح و نجات ہے اور لڑکی کی پرورش ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے آدمی اس منتہائے مقصود کو پا سکتا ہے۔ لڑکی سے پیارو محبت، اس کے ساتھ نیک سلوک اور شوق و لگن سے اس کی پرورش وکفالت کے لیے فلاح آخرت کا محرک ہی سب سے مضبوط اور موثر محرک ہونا چاہئے –
اللہ نے آپ کو لڑکیاں دے کر اور ان کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری سونپ کر گویا یہ موقع فراہم کیا ہے کہ آپ اپنی فلاح و سعادت کا سامان اپنے گھر میں ہی کر لیں اور اپنے فطری جذبے کی تسکین کر کے اپنے منتہائے مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لڑکی کے ساتھ حسنِ سلوک کے صلے میں جنت کی ضمانت نبی صادق کی زبان سے اس قدر زبردست محرک ہے کہ اس کے مقابلے میں دوسرے سارے محرک بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ 
پھر بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہنوں کی پرورش و کفالت کا بھی اللہ کے رسول نے یہی صلہ بیان فرمایا ہے اور ایسے شخص کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ایک روایت میں نبی ﷺ نے دو بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کا صلہ جنت قرار دیا ہے- اسی میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کا یہ بیان بھی ہے کہ اگر لوگ ایک بیٹی یا بہن کی پرورش کے بارے میں پوچھتے تو حضور ایک کے بارے میں بھی یہی بشارت دیتے۔
اوپر کی ان حدیثوں میں لڑکیوں کی پرورش و کفالت کی ترغیب دینے کے لیے سب سے زیادہ قوی محرک یعنی فلاح آخرت کی طرف ذہن کو متوجہ کرنے سے یہ غلط فہمی نہيں  ہونی چاہئے کہ لڑکیوں کی پرورش کرنے والے کو جو کچھ ملے گا وہ بس آخرت میں ہی نصیب ہوگا۔ یہاں تو زحمتیں، پریشانیاں اور تنگ دستی ہی اس کے لئے مقدر ہے۔ درحقیقت سب کی کفالت کرنے والا تو وہ خدا ہے جو تمام خزانوں کا اصل مالک ہے،  ہو سکتا ہے کہ وہ بچیوں کے طفیل خود سرپرست پر بھی خصوصی توجہ فرمائے اور یہاں بھی اسے خوش حالی اور کشادگی نصیب ہو۔ جن بچیوں کی وہ پرورش کررہا ہے درحقیقت وہ اس کے دسترخوان پر اپنی قسمت کا کھاتی ہیں اور یہ اس کی خوش نصیبی اور سرفرازی ہے کہ خدا نے اس کے لئے اس کو چنا ہے- حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ ایک بار ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، اس کے یہاں کئی بچیاں تھیں، اس نے کہا کاش یہ سب مر جاتیں۔ حضرت ابن عمرؓ کو اس شخص پر سخت غصہ آیا اور بولے ’’کیا تو ان بچیوں کو روزی دیتا ہے؟‘‘
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’خدا کی طرف سے تمہاری جو مدد بھی کی جاتی ہے اور جو روزی تمہیں دی جاتی ہے وہ تمہارے کمزوروں کی بدولت ہی دی جاتی ہے۔ (بخاری)۔
آج كى دنيا ميں عورت مرد كى برابر كى شريك ہے، ميڈيسن ہو يا  انجينئيرنگ ، سائنس ہو يا ادب وفن ، صحافت ہو يا سياست  دنيا  كے مختلف گوشوں ميں رہنےوالى ماں ، بيٹى  يا  بہن نےاس بات كو ثابت كر دكهايا ہے كہ  معاشروں كى تعمير  ميں ان كا كردار بنيادى اہميت كا حامل ہے.  وه مرد كى شريكِ حيات ہے، اور  شريكِ خيال بهى. وه نئى نسلوں كى كردار وضمير كى بانى ہے ، اسى لئے اس كى صحيح تعليم وتربيت ايك محكم اور مضبوط معاشرے كے قيام كے لئے لازم ہے.  

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.