ہم روزے کیوں رکھتے ہیں!؟

  • | بدھ, 14 اپریل, 2021
ہم روزے کیوں رکھتے ہیں!؟

 

 رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا ایسا مہینہ ہے جس میں تیس دن کے لئے ۔۔۔شدید گرمیوں یا سردیوں میں  ہم اپنے خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے  اپنی محبوب ترین چیزوں کو مکمل طور پر ترک کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ ذاتی محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ اپنی ذات کے حوالے سے نظرثانی اور اصلاح کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اپنی خواہشات اور اپنے نفس پر قابو پانے کی تربیت ہے اس کے ذریعے مومنین میں یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ صبراور نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اور نہ صرف ایک جسمانی عبادت ہے بلکہ نفسیاتی ریاضت بھی کیونکہ وہ اس سے اپنی خواہشات پر غلبہ پالیتا ہے، وہ روزمرہ انسانی عادات کے شکنجوں سے آزاد ہوکر صرف اپنے پروردگار کی رضامندی کے لئے اپنی خواہشات سے دست کش ہوحائے۔
 رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے کیونکہ اللہ نے اسکو اپنے بندوں  پر فرض کیا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" (البقرة: 183) " اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كئے گئے تھے تاكہ تمہارے اندر تقوى پيدا ہو"۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے 1/ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. ۲/ نماز قائم کرنا. 3/  زکاۃ دینا. 4/ رمضان کے روزے رکھنا. 5/ بیت اللہ کا حج کرنا“۔(صحيح البخاري ومسلم). 
توحیدورسالت کی شہادت کے بعد نماز‘روزہ ‘زکوٰة اور حج اسلام کے چار رکن ہیں اور پھر ان چار چیزوں میں سے بھی نماز اور روزہ کی زیادہ اہمیت ہے ‘اس لیے کہ یہ ہر مسلمان پر فرض ہیں جب کہ زکوٰة صاحب ِنصاب پر اور حج صاحب ِاستطاعت پر فرض ہے۔
اس کے علاوہ روزہ داروں کے لیے جنت کا ایک دروازہ ”ریان“ مخصوص ہے، جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے اُن کے علاوہ کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہیں ہوگا، ان کے علاوہ روزے کے فضائل سے کتبِ احادیث بھری پڑی ہیں ان ميں سے سب سے نماياں ہیں: 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےكہا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔"(صحيح الخاري)
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔“(صحيح مسلم)
بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیا گیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر موٴمن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی۔ جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے، یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فحش وگندی فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
تو انسان پر واجب ہے کہ وہ توبہ کی طرف جلدی کرے اور منکرات سے دور رہے۔ اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کیونکہ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ کہلاتا ہے۔ اور رمضان کا روزہ چھوڑنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ جس نے بغیر مجبوری کے روزہ چھوڑا اور توبہ بھی نہیں کی تو ساری زندگی روزے رکھتا رہے، اسکی کفایت نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میں آ دمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعد اس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔ تقریباً  اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایا گیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ ) ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی زکات (صفائی ستھرائی) کا ذریعہ ہے اور بدن کی زکات (صفائی ستھرائی) کا ذریعہ ”روزہ“ ہے۔
Print
Tags:
Rate this article:
1.7

Please login or register to post comments.