فلسفۂ قربانی انسانی ، مادی اور روحانی ضرورتوں کے تناظر میں

  • | اتوار, 18 جولائی, 2021
فلسفۂ  قربانی انسانی ، مادی  اور روحانی ضرورتوں کے تناظر میں

 

خدا کی ساری شعائر اس مخلوط نظام سے بالکل بھی باہر نہیں   جس پر پورے  کا پوار دین قائم ہے، اس نظام سے ہمارى  مراد  (زمین و آسمان کی آمیزش) ہے، جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں روح اور مادے کی آمیزش ہے۔

یہ مادہ انسان کی ذات میں  زمین کی حقیقت، اس کی فطرت  اور اس کی علمیت  کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ روح  الله رب العزت کے ساتھ ایک روحانی رشتہ  کی نمائندگی کرتی ہے جس میں ذاتِ انسانی اپنے دنیاوی مفادات سے بالاتر ہوتی ہے۔

تمام عبادات اور اسلامی شعائر ایک خصوصیت جو (دنیا اور آخرت) کے درمیان انضمام کے گرد گھومتی ہیں، اور اس امتزاج کی نمائندگی (روح اور مادہ) کے مابین کی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ خدا کی شعائر  انسانی فطرت کو مدنظر رکھتی  ہیں، اور اس کے اندر دو جہتیں ہیں: آسمان سے متعلق ایک روحانی جہت اور زمین سے متعلق ایک مادی جہت ۔

لہذا ، فلسفہ قربانی میں غوروفکر کرنے والے کو  پتہ چلتا ہے کہ اس کے دو بنیادی مقاصد ہیں، جیسا کہ تمام اسلامی عبادات اور رسومات کے یہى دو مقاصد ہیں، ايك  آسمانی جہت  جو (خدا کی الوہیت) کی شکل میں  ظاہر ہے ، اوردوسرى زمینی جہت  جو  (معاشرے کے مزاج ) کی شکل میں  ظاہر ہوتے ہیں۔  اگر ہم قربانی پر غور کریں اور اس کا تسلسل کیسا تھا تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں خدا کی الوہیت کا طول و عرض اس کی زمینی اور معاشرتی جہت سے رنگا ہوا ہے۔

        قربانى كى روحانى جہت

خدا نے دنیاوی زندگی کو ایک امتحان اور آزمائش بنایا ، حتی کہ انبیاء کرام بھی اس آزمائش کی سنت سے باہر نہ تھے ، کیونکہ اللہ تعالی  نے ان کو آزمایا اور ان کے ایمان کو پرکھا۔  آزمائش کی سنت  انسانی زندگی میں ابھی تک باقی ہے اللہ رب العزت کاارشاد کہ : "كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ" [الأنبياء 35] (ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں آزمانے کے لئے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤ گے)

تاہم قربانی کا فلسفہ انسانوں کےلئے اس آزاد جہت سے نکلا ہے جس میں  نفس  کا تعلق مال  اور اولاد سے جڑا ہوا ہے  اور خدا نے ابراہیم علیہ السلام اور ان  کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام دونوں کو خدا کی اطاعت  کا نمونہ بنایا جو انسانیت کےلئے خدا کی آزمائش کی وضاحت کرتا ہے۔  جب کہ اسلام کا پیغام اس عمارت  کی تکمیل کرنے کے لئے پہنچا ہے جس کو  انبیاء نے تعمیر کیا ہے، وہ اپنے  فلسفے میں روح اور مادے کو جمع کئے  ہوئے ہے۔

 قربانی کا فلسفہ بذات خود انسان کی روحانی اور اس کی مادی ضرورت کے مابین ایک امتزاج  ہے ۔اس میں کھانا کھلانا اور روح کو بخل اور كنجوسى   سے پاک کرنا ہے، اور اس میں قربانی کو اللہ رب العزت کی رضا کےلئے قربان کرنے کا  روحانی پہلو  بھی پایا جاتا  ہے۔

سورہء الصافات  کی یہ آیات اس جوہر کے ساتھ ہیں جن میں خدا کی الوہیت ہر چیز پر ماوراء ہے، جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اس خواب کی تعبیر  میں ذبح کرنے کےلئے آمادہ ہو گئے جو انہوں نے خواب دیکھا تھا ، لہذا وہ خدا کے حکم پر عمل پیرا ہوئے، اور اس آزمائش کا مقابلہ صبر سے کیا لہذا اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102)فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105)إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ(106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (108)سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (109)كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ(110) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ " [الصافات111]

ترجمہ:(پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے، کہا اے ابا! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا۔ اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم!۔ تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں- البتہ یہ صریح آزمائش ہے۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے۔)

خدائے تعالٰی نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے، لہذا ذبیحہ ایک آزمائش اور امتحان  کے سوا کچھ نہیں تھا، اور اللہ تعالی  نے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح عظیم  کے ذریعے بچا لیا  تاکہ یہ سنت ہمیشہ ہمیشہ کےلئے باقی رہے اور یہ رسم صرف اور صرف خدا کے لئے ادا کی جائے، لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے جانوروں  کو اس وقت ذبح کریں جب وہ روح، پاکیزگی اور تقویٰ خدا سے منسلک ہر ہوس سے آزادی کے بعد اس منفرد جہت الہی کی طرف متوجہ ہوں ۔

ايك اور اہم بات يہ بهى ہے كہ  اللہ تعالی کو  قربانى كے گوشت اور نہ ہی ان کے خون سے کوئی  مقصد ہے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم تقوی اختیار کریں، اگر یہ واقع رونما نہ  ہوتا تو اللہ رب العزت  کو کسی قسم  کا کوئی نقصان نہ تھا  بلکہ ہمیں ہی اس کا فائدہ  ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : "لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِين۔" [الحج 37]

ترجمہ (اللہ کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیزگاری اس کے ہاں پہنچتی ہے، اسی طرح انہیں تمہارے تابع کر دیا تاکہ تم اللہ کی بزرگی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی، اور نیکوں کو خوشخبری سنا دو۔)

مومن کے تمام اعمال   خالصتا  اللہ تعالی  کے لئے ہونے چاہئے، بالکل اسی طرح جس طرح ساری زندگی اسی کی خوشنودی کے مطابق چل رہی ہے "قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام 162] (کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔)

قربانی کی سماجی جہت:

        اسلام  اور فطرت کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، کیونکہ یہ روح کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور مادہ کی ضروریات کو بھی  پورا کرتا ہے، جبکہ یہ روح كو اس طرح کنٹرول میں رکھتا ہے تاکہ وہ زمین سے جدا نہ ہو، اور مادے کو کنٹرول میں رکھتا ہے  تاکہ یہ روح سے خالی نہ ہو۔

قربانی کی یہ سنت جو بالکل خدا کی ذات کےلئے خاص ہے یہ غریبوں اور مسکینوں کی حاجت روائی اور ان کو کھانا کھلانے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ اور کوئی بھی صاحب اخلاق مومن اپنی زندگی میں اخلاقیات کی اس روح سے کبھی بھی متجرد نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :"لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ" [الحج 28] (تاکہ اپنے فائدوں کے لیے آ موجود ہوں اور تاکہ جو چارپائے اللہ نے انہیں دیے ہیں ان پر مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد (قربانی) کریں، پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی کھلاؤ۔(

بے شک قربانی کا فلسفہ بذات خود ایک شخص کی روحانی ضرورت اور اس کی مادی ضرورت کے مابین ایک امتزاج (مرکب) ہے ۔ اس میں کھانا کھلانا اور روح کو بخل  سے پاک کرنا، اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے قصہ کو مد نظر رکھتے ہوئے قربانی کو اللہ رب العزت کی رضا کےلئے قربان کرنے کا روحانی پہلو  بھی پایا جاتا  ہے، لہذا قربانی دو جہانوں دُنیا اور آسمان کے مابین  ایک ہی مخلوط جہت اور معاشرے کی ضرورت اور اللہ رب العزت کی تمام شریعتوں اور آیات میں مشاہد فرد  کی نمائندگی کرتی ہے۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.