دہشت گردى كا خاتمہ اور ايك " باعزت زندگى" (حياة كريمة) كا آغاز

  • | اتوار, 12 ستمبر, 2021
دہشت گردى كا خاتمہ اور ايك " باعزت  زندگى" (حياة كريمة)   كا آغاز

 

      دہشت گردی كی کوئی ایسی تعریف کرنا جو کہ ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جا سکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور كسى بهى  معاشرے کے حالات کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے تو پھر اس لفظ کی لغوی تشریح یوں ہوسکتی ہے کہ “خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا جس سے قصوروار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر، (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب (جسمانی نہ سہی نفسیاتی) پھیلایا جائے۔“ 
  اسى ليے  اکثر یہ مسئلہ کہ دہشت گرد کون ہے بعض گروہوں يا جماعتو ں کی غیر قانونی حیثیت اور ان کی سیاست سے جڑجاتا ہے."دہشت گرد" کی اصطلاح کو بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس کی اہمیت گھٹ جائیگی اور بالاخر یہ اپنا مفہوم کھو بیٹھے گا- 
دنيا كےبیشتر ممالک نے دہشتگردى كا سامنا كرنےكے ليے  مختلف پالیسیاں اپنائى ہيں جن  كا اولين مقصد دہشت گرد تنظیموں كا خاتمہ يا  كم از كم جتنا ہوسكے ان كے حملوں كو كنٹرول ميں ركهنا ہے  ۔ مصر  بهى عسکری اور معاشرتى سطح پر دہشتگردى  كے خلاف ايک نہايت مشكل جنگ لڑ رہا ہے،  جس میں مصری ریاست نے  مختلف سطحوں پر كام  كيا ہے، مصرى فوج تو کئی برسوں سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہیں۔  ليكن سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں حکومت کے دیگر اداروں اور مصرى عوام نے دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے اور اس  كا سامنا كرنےكے ليے  كيا کردار ادا كيا ہے؟
اس ميں كوئى شك نہيں ہے كہ  ملٹرى آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر حکومت اور ادارے اس مسئلے کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کےلئے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کرینگے، دہشتگردی کا مكمل خاتمہ ممکن نہیں۔ وجہ صاف ہے۔ فوج کی ٹریننگ دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کےلئے ہوتی ہے، ليكن کسی بھی درست یا غلط نظريے کو ختم کرنے کےلئے نہیں۔ فوج اتنا تو کر سکتی ہے کہ کسی جگہ موجود دہشتگردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشتگردوں کے چنگل سے آزاد کروا لے۔ لیکن جب تک دہشتگردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی، یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ مصر میں ہونےوالی دہشتگردی میں ”بیرونی ہاتھوں“ کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے۔ لیکن ان بیرونی ہاتھوں کو سہولت کار اور آپریٹیو ملک کے اندر سے ہی ملتے ہیں۔ وہ کونسے عوامل ہیں جو کسی مصرى کو دہشت گرد یا خود کش حملہ آور بنا دیتے ہیں؟ اسى لئے مصری ریاست نے دہشت گردی کے رجحان کا مطالعہ کیا۔ تاكہ اسباب اور عوامل كو اچهى طرح سے پہچان سكيں۔
سب سے پہلے غربت اور بے روزگاری۔ ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ غربت سے تنگ آ کر کسی نے خود کشی کر لی ہے۔ جو بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنی جان لے سکتا ہے اسے کسی اور کی جان لینے پر بھی اکسایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں۔ اب ذرا انصاف سے سوچیں كہ غربت اور بهوك انسان   کو کس طرح ستاتی اور رلاتی ہے تو پھر ذرا تصور کریں کہ آج کے اس معاشرے میں جہاں خود غرضی، بے حسی، لالچ اور حرص و ہوس نے ڈیرے ڈال رکھیں ہوں وہاں غریب انسان کے لیے اللہ کی آزمائش سے گزرنا  کس قدر مشکل ترین كام ہے غربت اور بھوک و ننگ ایسی بڑی مصیبتیں ہیں جو ان کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کردیتی ہیں جس سے ان کے پیٹ کی آگ بجھ سکے ، وہ اپنے پیٹ کی آگ بھرنے کے لیے دہشت گردی پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی سے ان کے انتقام کی آگ کو بھی تسکین ملتی ہےافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے لیے بين الاقوامى اداروں نے  کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ جتنى كانفرنسز، ميٹنگز ، وركشاپز بلكہ با قاعده ادارے دہشتگردى يا انتہا پسندى كے خاتمہ كےليے قائم كيے گئےہيں،  اگر دنيا ميں غربت، بهوك اور جہالت كےخاتمہ كے ليے بنائےجاتے تو يقينًا دنيا كا حال اس سے بہتر ہوجانا تها.  اس لئے اس مسئلے کو کثیر الجہتی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ، مصر کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی ایک اہميت اور خصوصيت کا حامل ہے، کیونکہ یہ ایک جامع ، کثیر الجہتی نقطہ نظر سے شروع کی گئی ہے جس میں سیکیورٹی ، معاشی ، معاشرتی ، قانونی ، تعلیمی اور ترقیاتی پہلو شامل ہیں۔ چونکہ مصری ریاست کے پيش کردہ قومی منصوبوں کا مقصد متعدد شعبوں کی ترقی کرنا ہے، ان منصوبوں کی روشنی میں ايسے "باعزت زندگی"  (حياة كريمة) منصوبے کی اہمیت ابھری ہے۔ جس كا صدر عبد الفتاح السیسی نے 2019 میں آغاز کیا۔ اس منصوبے كا مقصد غربت اور کچی آبادیوں کا مقابلہ كرنا  ہے، اور غریب علاقوں میں لوگوں کو ایک اچھی زندگی فراہم كرنا ہے، تاکہ وہ انتہا پسندی کے چنگل میں نہ آئیں۔
ماضی میں مصری لوگ اپنے ملک کو مہنگائی، بے روزگاری، غربت ، جہالت اور زندگی کے  تمام شعبوں میں زوال کی بیماری سے چھٹکارا پانے کے منتظر تھے،  ہمارا زوال ان شعبوں میں نمایاں دیکھا جاسکتا تها،  ليكن آج مصرى لوگ اپنے ملك کا زوال سے عروج تک کا سفر ديكهتے ہیں تو صدر عبد الفتاح السیسی کے باعزت زندگی (حياة كريمة)  كا آغاز کرنے  كے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مصريوں كى زندگی میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں، جب ہم باعزت زندگی (حياة كريمة) كے آغاز سے پہلے حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے پروگرام زمینی صورت حال میں مثبت تبدیلیوں کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔
 مندرجہ ذيل ميں کچھ اعداد وشمار جو باعزت زندگی كى اہميت كو ظاہر كرتے ہیں، 2017ء ميں مصر كى مردم شمارى كے مطابق مصرى ديہات میں بہت سے لوگ نوکریوں كى كمى، آمد ورفت كى دشوارى اور ديگر  بنیادی سہولیات كى كمى میں مبتلا ہیں، علاوه ازيں مردم شمارى كے مطابق ديہاتى علاقے میں تقريبا دو ملين افراد مشتركہ گهر ميں (ایک یا دو کمروں کا گھر) رہتے ہیں، اور بهى كئى خاندان پانى كى كمى كا شكار ہیں، اس كے ساتھ ساتھ لوگوں کو مناسب خوراک نہیں ملتی، وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اِتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے، اور بے شك ايسے صورتحال ميں انتہا پسندى آگے بڑهتى ہے، اسى لئے دیہاتی علاقوں کی جامع تبدیلی کے لیے منصوبہ بندی کرنا وقت كى ضرورت تھى، اور شہریوں کی زندگیوں کو ازسرنو اصلاح  کرنا، تاكہ وہ زوال سے اٹھ کر ایک باعزت وباوقار زندگی گزاریں۔ چنانچہ ديہات ميں باعزت زندگی (حياة كريمة) كا آغاز ہوا، اور اس منصوبے كا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ جسے اس کے نفاذ کے لیے تقریبا 103 ارب پاؤنڈ مختص کیے گئے ہیں۔ تقریبا 277 گاؤں میں جہاں غربت کی شرح 70 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، 4.5 ملین مستحقین کو صحت کی سہولیات، تعلیمی وثقافتی سرگرمیاں  اور ديگر  بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں۔ چونكہ تعلیم کا شعبہ سب سے پہلے انتہا پسندی کے زد میں آتا ہے اور علم کے ذریعے ہی روشنی پھیلتی ہے اس لئے انتہا پسند لوگوں کو تاریکی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے  69 سکولوں كى تعمير كى گئى ہو. اس كے ساتھ 98 طبی مراکز قائم کیے گئے۔
.
 ایک بے مثال قومی ترقیاتی منصوبہ جس کا مقصد نہ صرف شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لانا ہے ، بلکہ  دہشت گردی كو اس كى جڑوں سے اكهاڑنا  ہے۔ اس منصوبے کے فلسفہ كا دارومدار ہى  مصری شہری ہے، کیونکہ وہى ترقی کا فائدہ اٹھانے والا اور وہى اس کا بنيادى محرك  ہے۔ اسى لئے مصرى رياست كا ہدف مصرى شہری كى زندگى اور خيالات  ميں حقيقى تبديلى لانا ، اور اس  کے نظریات درست کرنے کےلئے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر معاشی، معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں  كى بحالى ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ ہر فرد کو اس جنگ میں مصرى رياست كے اداروں کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشتگرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو پاؤنڈ  زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔ لہذا، شہریوں کو کرایہ داروں کے مجاز حکام کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے، شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے یا فوج کی۔ انکی ذمہ داری اپنی جگہ لیکن جب تک ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اس ملک کے بچے بچے کی جنگ ہے اور ہم سب کو یہ جنگ جیتنے کےلئے ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ہمیں مکمل کامیابی نہیں ملے گی۔
ہم اللہ تعالٰی  رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ملک اور اس کے عوام  اور اس كے صدر کی حفاظت فرمائے... آمين 
 
Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.