پرامن بقائے باہمی میثاق مدینہ کی روشنی میں

  • | منگل, 28 دسمبر, 2021
پرامن بقائے باہمی میثاق مدینہ کی روشنی میں

 

     رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم اور سيرت النبى كا درسِ اولين  هى دراصل  پرامن بقائے باہمی هے، آپ (صلى الله عليه وسلم)   نے جس طرح ایک نئی ریاست کی بنیادیں مضبوط كیں تو اسى طرح غیر اقوام سے امن و امان کے معاہدات بھى طے کیے، اس سے رسول پاک کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن و سلامتی سے فائدہ اٹھائے، چنانچہ آغاز میں آپ (صلى الله عليه وسلم)   نے یہود مدینہ کے تینوں قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ، کے ساتھ ایک امن كا معاہدہ طے کیا جس میں انہیں دین و مذہب اور جان و مال کی مطلق آزادی دی گئی تھی ، اس معاهده  میں جلاوطنی، جائیداد کی ضبطی، یا جھگڑے کی سیاست کا کوئی رخ اختیار نہیں کیا گیا تھا، اس معاہدے کو میثاق مدینہ کا نام دیا گیا ۔
اس معاہدے کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ پہلے حصے کا تعلق انصار و مہاجرین سے ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں۔ 
1.    تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
2.    مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
3.    اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے
4.    مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
5.    فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
6.    قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
7.    تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
8.    تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
1.    مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
2.    مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
3.    بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
4.    ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
5.    مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
6.    تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
7.    یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
8.    مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
9.    یہودی قریش یا ان کے حلیف قبائل کی مدد نہیں کریں گے۔
10.    یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
11.    اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
12.    ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
13.    شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
مدنی زندگی کی شروعات ہی میثاق مدینہ سے ہوتی ہے جو پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کی آج دن تک ایک شاندار مایہ ناز اورتاریخ ساز دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میثاق کے بعد دنیاکے نقشے پر اور اس آسمان کی چھتری تلے پہلی دفعہ ایک کثیرالمذہبی معاشرے نے جنم لیا۔ایک نبی علیہ السلام کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس کثیرالمذہبی پرامن معاشرے میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو انکی مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی تھی اورجملہ اختلافی امور باہمی گفتگوسے طے کرنا منظور پائے تھے اور کسی بھی تنازع کا حتمی فیصلہ ختمی مرتبت ﷺکے دست مبارک سے ہوناضبط تحریرمیں لایاگیاتھا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ "وثیقہ" صرف شہر کے مکینوں کے درمیان امن کا سیاسی معاہدہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک سماجی اور اخلاقی "انقلاب" بھی تھا جو مہذب اثرات اور انسانی مقاصد  کا حامل تھا ۔ یہ لوگوں کو "جاہلیت" اور کمزوری کی حالت سے نکالنے کے لیے آیا ہے، تاکہ 'قرآنی تصور کے مطابق' "وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے وجود میں لائی گئی ہے"۔ خدا تک رسائى كے لیے مختلف راستے اختيار كيے جا سكتے ہیں ليكن يه نہیں ہو سكتا كه ايک منزل تک پہنچنے كے ليے دوسرا راستہ اختيار كرنے والوں كو نفرت كى نظر سے ديكها جائے یا انہیں ڈرایا دھمکایا جائے یا ان سے امن و امان سے رہنے کا حق چھین لیا جائے، ایک ایسا حق  جسے ہر مسلمان اپنے ملنے والوں کو دیتا ہے۔ امن سلامتی کا حق۔۔ پر امن زندگی کا حق
Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
2.1

Please login or register to post comments.