فوج اور پوليس دشمن نہیں!!

  • | منگل, 4 جنوری, 2022
فوج اور  پوليس دشمن نہیں!!

 

سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس کے ذریعے  انتہا پسند گروہ  بہت سی غلط فہمیاں پھیلا کر نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں،  القاعدہ نے پولیس کو نشانہ بنانے پر اکسانے والا ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں کچھ فکری مسائل پر مبنی  باتيں ہیں جو فوج اور پولیس کا خون بہانے کے ان کے خونی طرز عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ فوج اور پولیس والوں کو قتل کرنے کی اجازت کا جواز پیش کرتے ہوئے  وه يہ دعویٰ کرتے ہیں کہ  پوليس کفریہ قانون کو نافذ کرتے ہيں ۔۔۔ بندوق کے زور پر انگریزوں  کا دیا ہوا کفریہ نظام نافذ کرتےہيں۔یہ پولیس نفاذِ شریعت کے لیے کوشاں علمائے کرام، مجاہدین اور داعیانِ دین کی قاتل ہے ۔ دین و نفاذ شریعت کا نام لینے والوں کو قید کرنا اور ان کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنا اس پولیس کا روز کا معمول ہے۔ یہ پولیس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صلیبی  اور  لادینى سیکولر گستاخوں کی محافظ ہے۔ یہ پولیس مسلمان پردہ دار خواتین کی بے حرمتی، ان کو گرفتار کرنے اور ان پر تشدد کرنے جیسے جرائم کی مرتکب ہے !!

ليكن ان باتوں پر يقين كرنے سے پہلے ہميں اپنے آپ سے يہ پوچهنا چاہيے كہ يہ كس حد تك صحيح ہيں!؟  كيا قانون نافذ كرنے والى يہ پوليس اپنا كام ادا كر رہى ہے يا محض  شريعت الہى كى دشمن ہے!؟ كيا يہ لوگ مسلمان نہيں ہيں؟ كيا يہ الله ہى كا نام لے كر اپنے ملك اور معاشرے كى حفاظت كے  ليے اپنے گهروں سےنكلتےہيں يا مظلوم لوگوں كانا حق خون بہانے كى غرض سے!؟  اس صورتحال كو واضح كرنے كے  ليے  چند  باتيں جاننا نہايت ضرورى ہيں. ۔

اسلام میں اصل یہ ہے کہ جس نے "لا الہ الا الله" کہا تو وه مسلمان ہے، اور اسے كافر سمجهنا جائز نہیں،  اس کلمہ کو پڑھنے سے انسان اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور جہنم کی آگ سے بچ جاتا ہے ۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس نے لا الہ الا الله کہا وہ جنت میں داخل ہو گا"  [ أخرجه أحمد]۔  حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت ان کے پانیوں پر انہیں جالیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک انصاری آدمی قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیرلیا تو اس نے کہا ”لا الہ الا ﷲ“۔ انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا۔ جب ہم مدینہ آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی ﷺ تک پہنچی۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:’’اسامہ! کیا تم نے کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر ڈالا؟‘ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: کیا تم نے اسے ’’لا الہ الا ﷲ‘‘ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا؟‘‘آپ ﷺ یہ جملہ بار بار مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کاش میں اس دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ [البخاري ومسلم]۔ اور الله رب العزت نے فرمايا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَٰلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾ [النساء: 94] " اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راه میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان واﻻ نہیں*۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق وتفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے"۔  

دنيا كے تمام اديان وملل  ميں اسلام ہی وه واحد مذہب ہے جس كى ہر تعليم میں دہشت اور بربريت كے بجائے شفقت اور رحمت كا عظيم پيغام پنہاں ہے۔ تکفیر کا مسئلہ ايك نہايت سنگین مسئلہ ہے ،کیونکہ یہ مسلمانوں کے خون، جان، مال اور حقوق کی خلاف ورزی اور بے حرمتی سمجھا جاتا ہے۔ ارشاد بارى تعالى کہ: ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ [النساء 93] " اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے،  اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔ "  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو دونوں میں سے ایک پر کفر آ جائے گا"[صحيح مسلم]۔

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "تمھارے بارے میں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ایک آدمی قرآن پڑھے، یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کی چمک دمک نظر آنے لگے اور وہ اسلام کا معاون وحامی بن چکا ہو، تو اس کو اللہ کى مشیئت کے مطابق کسى اور چیز سے بدل دے, اس سے عليحدگی اختیار کر لے، اسے پس پشت ڈال دے، اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑے اور اس پر شرک کی تہمت لگائے۔"  میں نے کہا : اے اللہ کے نبی! دونوں میں سے کون زیادہ شرک کا حق دار ہے، تہمت لگانے والا یا وہ جس پر تہمت لگائی جائے؟ تو فرمایا : "بلکہ تہمت لگانے والا"۔   [رواه ابن حبان]۔ اسى لئے کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی غیر مسلح اور غیر محارب (Non-Combatant) انسان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ تو اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق غیر محارب افراد یا ممالک کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی، خواہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اسلام نے ایسے غیر محارب لوگوں کے ساتھ پرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح بلا امتیاز قتل عام کی ممانعت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ  اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ" [الممتحنة: 8]  ’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ۔  حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’زخمی کو قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے۔‘‘۔  اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی اہمیت خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیاہے۔امام ابن ماجہؒ نقل کرتے ہیں،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کاطواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبوکتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے . ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رہنا چاہئے۔

 ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے، قتل و غارت گری کا مذہب نہیں۔ بلكہ شریعت اسلامیہ کی رو سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں،ان کے مقدسات اور ان کی جان و مال کا تحفظ بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسلام پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات پر مبنی پُر امن مذہب دکھائی دیتا ہے۔ بے شک اسلام ہمیں امن  اور بھائی چارگی کا درس دیتا ہے۔ امانت اور دیانت داری کے اسباق سکھاتا ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،  اسلام خونریزی کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام ناحق اور حرام مال کھانے کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام قتل و غارت گری کا نام نہیں ہے بلکہ ایک امن پسند مذہب ہے کیونکہ اسلام کا مطلب ہی سلامتی اور امن والا ہے ۔ فوج اور پولیس اہلکار ہمارے بھائی اور بیٹے ہیں اور ہماری حفاظت کا خیال رکھتے ہیں ۔عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو“۔

افسوس ہے كہ  دہشت گردی کے سربراہوں نے فہمِ شریعت کا ترازو اُلٹ دیا، انہوں نے قتل کو ایک اصولى قاعده  اور رحمت کو ایک شاخ بنا لیا۔ ان کا فقہ ناقص فقہ ہے جو وہم، مبہم خیالات اور غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ وہ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں جنہوں نے  معصوم لوگوں، فوج اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور مسلمانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کی وہ دین اور دنیا سے محروم ہو گئے۔   ايك جان كو قتل كرنے والا پورى انسانيت كا قاتل  ہے، اور اس كى حفاظت كرنے   والا پورى انسانيت كا محافظ اور حامى ہے . الله رب العزت دنيا والوں كے حاميوں كا حامى ہے اس كے قاتلوں كا محافظ نہيں..

Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.