اسلام ميں حقوقٍ نسواں

  • | اتوار, 6 فروری, 2022
اسلام ميں حقوقٍ نسواں

 

اسلام نے عورت كو اعلى مقام ديا، عورت کو جتنی عزت ، رتبہ اور مقام اسلام میں حاصل ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ،اسلام كى آمد سے  قبل عورت بہت مظلوم اور معاشرتى وسماجى عزت واحترام سے محروم تهى،اسے تمام برائيوں كا سبب اور قابل نفرت تصور كيا جاتا تها،ليكن  ظہور  اسلام   اور  اس كى مخصوص تعليمات كے ساتھ عورت  كى زندگى  ايك نئے مرحلہ ميں داخل  ہوئى جو زمانہ جاہليت سے بہت مختلف تھى۔

اسلام نے عورت كوخواهماںہو ، بيٹى ہو يا بہن ہو سب كےحقوق عطا كيے۔اسلام ميں عورتوں كے مختلف حقوق ہيں:.

 

  1. معاشى حقوق:

دیگر معاشروں نے عورت کے مقام کو مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے،اسلام  تمام تر معاشى ذمہ دارياں مرد كو سونپتا ہے،اور عورت پر كمانے كى ذمہ دارى  بالكل نہيں عائد كرتا، اسى طرح اسلام عورت كو  كاروبار اور ديگر قسم كے  كام كرنے كى اجازت  بهى ديتا     ہے، اس سلسلے ميں ام المؤمنين حضرت خديجہ رضى الله عنها  كى مثال  ہمارے سامنے ہے ،وه  اپنے دور ميں مكہ كى مالدار كاروبارى خواتين ميں شمار ہوتى تھيں اور نبى   كريم صلى الله عليه  وسلم  ان كى جانب سے كاروبارى ذمہ دارياں سر انجام ديتے رہے۔

  1. وراثت ميں عورتوں كا حق:

بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا،لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا،اسلام نے آج سے صديوں يوں پہلے  ہى عورت كو وراثت كا حق ديا، اگر آپ  قرآن كا مطالعہ كريں تو آپ ديكھيں گے كہ سورهء بقره، سورهء نسا اور سورهء مائده ميں واضح طور پر بتايا گيا ہے كہ عورت بيوى كى حيثيت سے، بہن اور بيٹى كى حيثيت سے وراثت ميں  حصہ دار ہے، اور اللہ تعالى نے ان كا حصہ قرآن ميں مقرر فرماديا ہے۔

  1. عورتوں كے تمدنى  حقوق:

اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ارشاد نبویﷺ ہےکہ

لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن"۔

ترجمہ: (بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے)۔

  1. حسن معاشرت و حسن سلوک کا حق

زمانہ جاہلیت میں عورت کی حالت بدترین تھی اس کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا اور اس کی معاشرے میں کوئی عزت  تهی ، اور نہ ہی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اللہ تعالی کا عورت پر یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نبی حضور ﷺ کو دنیا میں بھیجا جنہوں نے عورت کو معاشرے میں وہ عزت دلائی جس کی وہ حقدار تھی۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ"

"وعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ  فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا"۔(النساء:20)

ترجمہ : (اور عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی نا پسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے)۔

غرض يہ كہ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا ہے جس کی وہ حقدار تھی اوراسلام ان تمام الزامات کا بھی رد کرتا ہے جو دوسرے لوگوں کی طرف سے یا مستشرقین کی طرف سے اسلام پر لگائے جاتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔اسلام نے نہ صرف ان تمام الزامات کا رد فرمایا بلکہ دنیا کے سامنے عورت کو وہ مقام مرتبہ فراہم کیا جس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب میں موجود نہیں ۔آج سے  چوده  سو برس پہلے  عہد جاہليت ميں، اسلام كى انقلابى تعليمات  نے عورت كو  اس كے حقيقى  حقوق اور اصل  مرتبہ عطا كيا۔اپنے آغاز سے لے كر آج تك،اسلام كا مقصد ہميشہ يہ رہا ہے كہ خواتين كے حوالےرسے ہمارى سوچ،ہمارے خيالات ، ہمارے احساسات اور ہمارے طرز زندگى ميں بہترى لائى جائے اور معاشرے  ميں خاتون كا مقام بلند سے بلند تر كيا جائے۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
2.1

Please login or register to post comments.