"محنت ومشقت کا حق"

  • | منگل, 22 فروری, 2022
"محنت  ومشقت کا حق"

"محنت  ومشقت کا حق"

  • فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطيب نے حاليہ ميں  ایک بیان جاری کیا ہے  جس میں محنت کش خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے فتویٰ "محنت و مشقت  کا حق" کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ اس فتوے کے لب لباب میں یہ بات شامل ہے کہ ایسی خواتین جنہوں نے شوہر کی دولت میں ترقی کے لیے محنت کی، انہیں شوہر کی جائیداد میں سے نصف کا حق دار ٹھہرایا جائے۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے كہ الازہر الشریف کا 'اپنی ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ کے دوران' خاص طور پر جدید پیش رفت کی روشنی میں اسلامی ورثے کے اظہار اور دینی علوم و مسائل کی تجدید میں اہم کردار ہے۔
  •  الازہر الشریف نے جنوری 2020ء میں منعقد ہونے والی "تجدید کانفرنس" کے اختتامى  بیان میں اس فتوے کو بحال کرنے کے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کیا كہ " خاندانی دولت کی ترقی  يعنى كہ اس كو بڑهانےمیں حصہ لینے والے کو معاوضہ دینا ضروری ہے، جیسے كہ وه  بیوی جو اپنے پیسوں  کو اپنے  شوہر کے پیسوں پر ركهتى ہے، يا وه اولاد  جو  اپنے باپ کے ساتھ تجارت وغیرہ میں کام کرتے ہیں،  اس حالت ميں اگر اس مال كے اصل مقدار كا تعين ہو جائے  تو تقسیم کرنے سے پہلےجائیداد سے  اس رقم كو لے لیا جانا چاہيے، جو ان کے حق کے برابر ہو۔ اور اگر اس کی مقدار معلوم نہ ہو تو اہل تجربہ يا اس خاص ميدان كے ماہرين كے فيصلہ کے مطابق   اس کی موافقت کی جا سکتی ہے۔ "
  • عورت کا "محنت  ومشقت کا حق" ایک وراثتی فتویٰ ہے۔ خواتین کے مالی حقوق کے تحفظ سے متعلق اسلامی قانون میں اس کے قانونی شواہداور اثبتات بهى  موجود ہیں۔ الله رب العزت نے ارشاد فرمايا :  {لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ} [النساء: 32] "مردوں کے ليے ان کے اعمال سے حصہ ہے، اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے"۔ اور یہ فتویٰ خلیفہ عمر ابن الخطاب کے دور میں لاگو ہوا تھا، جنہوں نے" عامر بن الحارث "   كى جائيداد کا  آدها حصہ  ان کی اہلیہ "حبیبہ بنت زریقکو دینے کا حکم دیا۔یہ اس لیے کہ خاتون نے کام کے دوران اپنے شوہر کی مدد کی تھی اور اس کا ہاتھ بٹایا تھا پھر مختلف زمانوں کے دوران خاص طور پر مذہب مالکی کے فقہاء كے كئى  ججوں اور فقہاء نے ان کی طرح فیصلہ کیا۔
  • الازہر  نے  دولت اور جائيداد كى  ترقی يا اس كو بڑهانے میں حصہ داروں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں متعدد  فتوے جاری کیے ہیں۔  يہ فتویٰ  از حد ضروری ہے۔ خاص طور پر جدید پیش رفت کی روشنی میں جس کے تحت خواتین کو لیبر مارکیٹ میں داخل ہونے اور اپنے شوہروں کے ساتھ زندگی کا بوجھ بانٹنا پڑتا ہے۔
  • محنت  و مشقت کا حق صرف بیوی کے لیے شوہر کے پیسوں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہر اس شخص کا حق ہے جس نے اپنے پیسے یا کوشش سے کسی کے کاروبار اور دولت کے اضافہ يا اس كے بڑهانے ميں كوئى كردار ادا كيا ہو ، جیسے  بیٹا اور بیٹی، يا بهائى وغيره۔
  • محنت  ومشقت  کا حق شوہر کے مال کا  صرف آدها یا تہائی حصہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا  ہے کہ بیوی کےپيسوں سے اس کے شوہر کے پیسوں اور منافع میں کتنا اضافہ ہوا ہے، اس حالت ميں  بیوی اپنے مال کا مطالبہ کر سکتی ہے یا اس کا کچھ حصہ یا پورا  حصہ بهى معاف کر سکتی ہے۔
  • شوہر کى طرف سے مناسب  ترين  سلوک يہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنی زندگی ہى  میں اس كى  محنت اور جدوجہد کا حق دے  دے۔

اسلام نے ازدواجی زندگی کو رحمت اور محبت  پر استوار کیا ہے۔  اسى اصول كو مد نظر ركهتے ہوئے  اسلام نے مرد اور عورت کے مابين کرداروں کو تقسیم کیا ہے، اور ہر ايك سے مطلوب کاموں کو  ان  دونوں فریقوں کی نوعیت کے مطابق بانٹا ہے۔ اس نے مقاصد اور ذرائع پر روشنی ڈالى ہے، اور اس قاعده كو واضح كيا ہے كہ اسلام ميں  نہ ابتداءً كسى كو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ بدلے كے طور پر نقصان پہنچانا جائز ہے.  

Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
1.0

Please login or register to post comments.