کیا بهارت ميں مسلم خواتین کو حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں؟

  • | بدھ, 9 مارچ, 2022
کیا بهارت ميں مسلم خواتین کو حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں؟

 

     کوئی بھی انتہا پسندی یا تنگ نظری چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی کسی بھی معاشرے میں عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ جو معاشرے کے امن و سکون اور ترقی کو غارت کر دیتی ہے۔کیونکہ برداشت اور تحمل  کسی بھی معاشرے کا وہ ستون ہوتا ہے جس پر اس کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ قدرت کے نظام میں بھی ہمیں ہر جگہ بقائے باہمی کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا  أيك دائمى عمل دکھائی دیتا ہے۔نظام ِ شمسی میں بھی ہر سیارہ اپنی اور دوسرے سیاروں کی مرکز گریز اور مرکز مائل کشش کی وجہ سے ہی اپنے اپنے مدار میں حرکت کرتا ہے اور دوسرے سیاروں سے ٹکرانے سے محفوظ رہتا ہے تاکہ نظام ِ کائنات عالمِ بقا میں رہے۔ اگریہ مرکز مائل اورمرکز گریزقوتیں درہم برہم ہوجائیں تو اس کائنات کا وجود باقی نہیں رہ سکتا.

امن وسلامتى سے رہنا، دوسروں کو قبول کرنا اور ان کے عقائد کا احترام کرنا معاشرے میں سلامتی اور تحفظ کو پھیلاتا ہے۔ليكن حال ہی میں بھارتی حکومت کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہا پسندی کی لہر پھیلی ہوئی ہے۔ ہریانہ میں گزشتہ سال کے آخر میں، مساجد کی کمی کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان کھلی جگہوں میں نماز جمعہ کی ادا کرنے پر مجبور ہیں؛حالانکہ نمازیوں کو کھلی جگہوں میں  بهى نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔

حاليہ ميں کرناٹک حکومت نے 5 فروری کو تمام سکولوں اور کالجوں میں ڈریس کوڈ کو لازمی قرار دینے کا حکم جاری کیا تھا، بھارتی ریاست کرناٹکا کے سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات پر تعلیمی ادارے کے دروازے بند کردیے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی طالبات کا داخلہ بند کرکے ان باپردہ طالبات کو کالج سے نکال دیا گیا، کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ با پردہ طالبات کے خلاف ایکشن حکومت کے کہنے پر لیا جارہا ہے، وہ حجاب اتاریں گی تو انہیں کلاس میں بیٹھنے دیا جائے گا۔ حالانكہ حجاب لینا طالبات کا بنیادی حق ہے۔ اور انڈیا  میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو مذہبی لباس پر پابندی عائد کرے، کہا جا رہا ہے کہ انڈیا میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔ انڈین صحافی" نویدیتا نرینجن کمار" نے ایم جی ایم کالج میں حجاب تنازع پر ہونے والے ہنگاموں کی کئی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں برقعوں اور حجاب کے خلاف سینکڑوں زعفرانی شالیں اور ٹوپیاں پہنے طلبا اور طالبات ’جے شیوا جی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔

كيا بھارتی حكومت سکھوں کی پگڑی یا مسیحی افراد کے گلے میں صلیب ڈالنے یا پیشانی پر تلک لگانے پر پابندی عائد کر سكتى ہے؟!  اگر سکھوں کیلئے پگڑی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے تو پھر حجاب کیوں نہیں اوڑھا جاسکتا! حكومت کی جانب سے مسلمانوں کو کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟ كیا یہ ممکن ہے کہ باحجاب لڑکیوں کو اس لیے كلاسوں میں داخلے سے روکا جائے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں؟  

اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ديا ہے، اور عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ايسا معاملہ ہے جو اس كے وسيلہ كى حفاظت كے ساتھ ہوگا، اور كسى بھى عاقل شخص كو اس ميں شك نہيں كہ اس كے وسائل ميں سراور جسم  ڈھانپنا بھى شامل ہے، اسلام ميں حجاب ہر بالغ لڑكى پر فرض ہے ، حالانكہ ديكها جائے تو بہت سى مسلمان لڑكياں حجاب نہيں پہنتيں، ان كا يہ عمل ان كو اسلام سے خارج تو ہرگز نہيں كر سكتا، البتہ دينى اداره ہونے كے ناطے ہمارا يہ فرض بنتا ہے كہ ہم       قرآن  اور سنت كى روشنى ميں حجاب كى فرضيت كو ظاہر كريں: قرآن پاك ميں ارشاد ہے " اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ (النور:31) ۔ 

ياد ركها جائے كہ پرده سر اور جسم كو ڈهانپنے كا نام ہے، عقل كو ڈهانپنے كا نہیں۔ اور دنیا میں بہت سی باپردہ خواتین ہیں جنہوں نے يہ  ثابت کرديا  ہے کہ وہ ثقافتی اور فکری سطح پر قابل اعتبار ہیں ، اور اپنی عملی  زندگی میں ہر لحاظ سے  کامیاب ہیں۔ ان ميں سے بعض نام قابلِ ذكر ہيں:

دالیا مجاہد : أيك مصری نژاد امریکی خاتون ، جو وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون ہیں،  وہ "گیلپ سنٹر فار مسلم اسٹڈیز " کی سربراہ ہیں۔ اور وائٹ ہاؤس کے اندر مسلمانوں کی آواز اور امیج سمجھی جاتی تھیں کیونکہ وہ زیرک، حاضر دماغ، مضبوط، مخلص اورزبردست نسوانی شخصیت کی حامل ہیں۔

ملالہ يوسف زئی :ایک پاکستانی انسانی حقوق کی سرگرم رکن ، جن كو نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے

 ابتہاج محمد: ریاستہائے متحدہ کی شمشیر باز اور امریکی شمشیر باز ٹیم کی رکن ۔ وہ اس کھیل میں ریاستہائے متحدہ کی طرف سے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے والی پہلی مسلم خاتون ہیں۔ ابتہاج اولمپكس ميں كهيلنےوالى  پہلى حجابى امريكى  خاتون ہے  جس نے  گولڈ میڈل  حاصل كركے يہ ثابت كرديا كہ حجاب ركاوٹ يا كسى قسم كى زحمت ہرگز نہيں ہے ، ايسى خواتين نے مغربى ممالك كو أيك ايسا پيغام ديا ہے جو ہزاروں مقاليں اور تقريريں دينے سے قاصر رہى ہيں.

 گزشتہ ٹوکیو اولمپک میں مصرى چیمپیئن فریال اشرف نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ اور مصرى چیمپیئن ہدایہ ملاک نے کانسی کا تمغہ بھی جیتا تھا۔ حجاب ان تمام خواتين كے ليے  معزز ماڈلز بننےميں ركاوٹ ہرگز ثابت نہيں ہوا . ركاوٹيں تو ايسے لوگ كرتے ہيں جو أيك قوم كے باشندوں ميں بگاڑ تخليق كرنے كے طريقے ڈهونڈے ، جو آج كى نئى دنيا ميں رہنے كےباوجود لوگوں كےدرميان ان كے مذہب يا عقيده كےبنا پر تفرقہ كرے. جو يہ نہ جانےكہ قوم كا ہر فرد أيك قومى سرمايہ ہے، اس كى جسمانى، تعليمى، فكرى  اور نفسياتى حفاظت كرنا اس كے مختلف اداروں كا اولين فرض ہے. اسلام نے ہميں يہ حكم ديا ہے كہ " دين ميں كوئى زبردستى نہيں" اور يہى پيغام ہم    ہندوستان کے سمجھدار لوگوں تك پہنچانا چاه رہے ہيں كہ ان  کو  ہر ايسے فیصلے کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے، جس سے اقوام کا اتحاد تباہ ہو جائے ، اور ایک ہى  ریاست میں شہریوں کے درمیان تنازعہ پھیلے ۔

 

Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
2.0

Please login or register to post comments.