زندگى كے حريف...فلاح وبہبود وترقى كے دشمن!!

  • | منگل, 14 فروری, 2023
زندگى كے حريف...فلاح وبہبود وترقى كے دشمن!!

    آنے والا ہر سال پاکستان میں سیکیورٹی کے نئے چیلنج لے کر آتا ہے۔  پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، جہادی گروپوں کی سرگرمیاں، بلوچستان میں باغیوں کی کارروائیاں اور خودکش حملے، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کے ذریعے امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ رہی، پچھلے مہینے پشاور کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد 'جس میں اطلاعات كے مطابق  101 سے زياده  افراد  اجاں بحق  اور 50  سے زائد افراد كے  زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پولیس والے تھے،   جبکہ مسجد كے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن دنوں  جاری رہے' سوال  يہ  ہے کہ پاکستان میں خودکش حملوں کی تاریخ كيا ہے!؟  خاص طور پر كچھ خود کش حملے انتہائى گھناؤنے طریقے سے ہوئے ہيں، جيسے كہ پشاور كے مسجد كا حملہ  جہاں خود کش حملہ آور نے باجماعت نمازِ ظہر ادا کرنے کے دوران پہلی صف میں موجود خود کو دھماکے سے اڑا لیا، اور دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ 

پشاور كے اس آخرى خود کش حملے کی وجہ سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ نے بيان كيا ہے كہ  جولائی 2018 کے بعد جنوری 2023 مہلک ترین ماہ  ثابت ہوا۔ دراصل یہ واقعہ نہ صرف ايك دہشت گرد کارروائی تھی بلکہ اس سے صاف واضح ہوتا ہے كہ يہ پولیس  كے افراد كو نشانہ بنانے كى غرض سے تهى.

پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ 19 نومبر 1995ء میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں دوسرا خودکش حملہ 8 مئى 2002ء کو کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر ہوا جس میں فرانسیسی انجینیرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں گیارہ فرانسیسیوں سمیت چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں یہ پہلا خودکش حملہ تھا جس میں پاکستانی خودکش حملہ آور ملوث تھا۔ اس حملے کے بعد ایک اور خودکش حملہ 14 جون  2002ءکو کراچی ہی میں ہوا۔ اس حملے میں بارود سے بھرا ٹرک امریکی سفارتخانے کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ سنہ 2003ء  میں صرف ایک خودکش حملہ ہوا۔ یہ حملہ 25 دسمبر کو راولپنڈی میں ہوا اور حملے میں ہدف صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ اس واقعہ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ سنہ 2004ء  میں پانچ خودکش حملے ہوئے جن میں 57  افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے چار حملے فرقہ وارانہ تھے۔ سنہ 2005ء میں خودکش حملوں میں کمی آئی اور صرف دو حملے ہوئے۔ یہ دونوں حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں 31  افراد ہلاک ہوئے۔ سنہ 2006ء میں ایک بار پھر خودکش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس سال چھ حملوں میں لگ بھگ 140  افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں صرف دو حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں 40  افراد ہلاک ہوئے۔ان دو حملوں کے علاوہ ایک حملہ امریکی سفارتخانے کے سامنے ہوا جب کہ باقی تین سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف ہوئے تھے۔ سنہ 2007ء  کا آغاز ہی خودکش حملوں کے نہ تھمنے والے سلسلے سے ہوا۔ پاکستان میں اس سال میں ہونے والے خودکش حملوں کی تعداد 46  ہو گئی ۔ جبکہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 538  تهى، ان میں سے 135 افراد  وزير اعظم بےنظیر کی ریلی میں جاں بحق ہوئے۔  سنہ 2008ء میں 63خودکش حملے ہوئے جو کہ بہت زیادہ ہیں، جن ميں مارے جانے والوں کی تعداد 900 کے قریب تھی۔ سنہ2009ء میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں خودکش حملوں کی تعداد بارہ تھی جن میں 129شہری اور سرکاری اہلکار شہید ہوئے 679شدید زخمی ہوئے ،سینکڑوں لوگ زندگی بھر کے لئے معذور اور اپاہج بنا دیئے گئے ۔ یکم جولائی 2010 کو لاہور میں داتا دربار کمپلیکس اور ملحقہ مسجد پر دو خودکش حملہ آوروں کے حملے میں کم از کم 42 افراد جاں بحق اور 180 سے زائد زخمی ہوئے تھے، 19 اگست 2010 کو جمرود کے قصبے کی ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں چند افراد ہلاک ہوئے۔ 7اکتوبر 2010 کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے دروازے پر ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں میں تقریباً 9 افراد جاں بحق ہو گئے تھے. ۔ 5  نومبر 2010 کو درہ آدم خیل کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش بم دھماکے میں 72 سے زائد افراد جاں بحق اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔  7 جون 2012 کو کوئٹہ میں ایک مدرسہ و مسجد کے باہر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 5 بچوں سمیت کم از کم 15 افراد جاں بحق ہوئے۔اسی سال 21 جون کو کوئٹہ کی ایک مسجد کے اندر ایک اور بم دھماکہ ہوا تھا جس میں مزید دو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 9 مارچ 2013 کو پشاور کی ایک مسجد میں دھماکے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 17 دسمبر 2013 کو راولپنڈی کے علاقے گریسی لائنز میں واقع امام بارگاہ کے باہر خودکش دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 9 جنوری 2015 کو راولپنڈی کی ایک مسجد کے ڈرین پائپ میں نصب ٹائم بم پھٹنے سے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ 30 جنوری 2015 کو شکارپور میں شیعہ مسجد میں بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 53 افراد جاں بحق ہوئے۔ 13 فروری 2015 کو پشاور کی ایک مسجد میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے۔18 فروری 2015 کو کری روڈ، راولپنڈی میں واقع قصر سکینہ امام بارگاہ میں دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ اور 4 مارچ 2022 کو پشاور میں ایک شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 65 افراد جاں بحق ہوئے۔

ان تمام حملوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ميں سے فرقہ وارانہ حملے ہوئے اس کے علاوہ حملوں میں سیاسی شخصیات اور  عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف نئے طریقے ضرور اپنائے مگر دوسری طرف دہشت گردوں نے بھی اپنے طریقہ واردات بدل ڈالے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہشت گرد عناصر نے طالبان اور القاعدہ کی مدد سے دہشت گردی کے لیے جدید ترین طریقے اختیار کیے جیسے القاعدہ اس سے قبل عراق میں اختیار کر رہی تھی۔ جہاں ان حملوں  میں (سی 4) نامی پلاسٹک مادہ استعمال کیا گیا۔ اور اس سے قبل یہ القاعدہ نے اپریل 2005ء میں ابوغریب جیل کو اڑانے اور اپنے قیدی چھڑانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ چنانچہ یہ حملے یہ سمجھنے میں کافی مدد دیتے ہیں کہ دہشت گردوں نے جدید طریقے اپنا لیے ہیں اور ان کے رابطے القاعدہ کے ساتھ زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔

خودکش دھماکوں کی ان بڑى تعداد كى وجہ سے اب تک ان   کی درست تعداد واضح نہیں ہو سکی، لہٰذا ریاست کی حکمت عملی بنانے والوں، سیاست دانوں اور مذہبی لیڈروں، عام لوگوں اور میڈیا کو ان پہلوؤں کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ اس وقت نہ صرف سیکیورٹی فورسز کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف پالیسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ ساتھ ہی سیاسی، سول سوسائٹی اور میڈیا کی سطح پر بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی صرف اس وقت تشکیل پا سکتی ہے جب سب لوگ اس کے خطرے کو سنجیدگی سے محسوس کریں گے۔ اس میں گورنمنٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو ایک نقطہ پر اکٹھا کریں۔

2۔ دہشت گردی کے واقعات کا بڑھنا اس چیز پر زور دیتا ہے کہ مؤثر نتائج شدہ پالیسی اور قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پہلو کی طرف زور دینے کی ضرورت ہے اور بہتر تربیت، ہنر، سامان اور دوسرے ملکوں کی فورسز سے مشترکہ طور پر تجربہ شیئر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرے سے پیشہ ورانہ طریقے سے نمٹا جا سکے۔

3۔ مؤثر اور پیشہ ورانہ انٹیلی جنس دہشت گردی کے خطرے کو روکنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرۂ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بہتر ہم آہنگی کو یقینی بنانا چاہیے۔

4- حکومت کو سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایسے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں جن میں سب کی شمولیت ممکن ہو سکے جیسے آل پارٹیز کانفرنس وغیرہ ۔

5۔ اس وقت بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنا چاہیے۔ ان کے لیے صحت، تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لیے اور زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔

6- دہشت گردى كى ايك نہايت اہم وجہ جہالت اور دين ودنيا كے امور سے لا علمى ہے، اس كو مٹانے كے ليے ديگر اداروں كو نو خيز نسل كى فكرى اور علمى نشوونما پر زور دينا چاہيے.

اس ميں كوئى شك نہیں ہے کہ اسلام، دینِ امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو، خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو، جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام ميں انسانى جان كى بے پناه حرمت ہے اور كسى انسان كو قتل كرنا شديد گناه كبيره ہے ، الله رب العزت نے ارشاد فرمايا:  "اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرنا" [الاسراء: 33]،  اور ارشاد بارى تعالى: اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔" [النساء: 93]۔ ايك اور جگہ میں رب العزت نے ارشاد فرمايا:" جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی" [المائده: 32]۔

اس كے علاوه اسلام نے ایسے غیر جانب دار لوگوں کے ساتھ پُرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا. وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے، ارشاد بارى تعالى ہے: "اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے" [الممتحنه: 8]

 

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.