اسلام كے نام سے دہشت گردى!

  • | بدھ, 1 مارچ, 2023
اسلام كے نام سے دہشت گردى!

اسلام امن وسلامتى، روادارى اور صلح كا   مذہب ہے، اسلام  نے انسانى جان   كا قتل سختى سے ممنوع قرار ديا ہے. ارشاد بارى :" اور جس جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت) ۔ [سورۂ اسراء: 33].

 معصوم لوگوں  كا خون بہا كر قتل كرنا اسلام  ميں قطعاً  حرام  وناجائز ہے ،  اسلام   اس   وحشيانہ   فعل كى بالكل ممانعت اور    ايسا كرنے والے كو  شديد سزا كا مستحق قرار ديتا ہے،اللہ تعالى نے ارشاد فرمايا كہ:" جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا۔[سورۂ مائده: 32] ۔

حضور پاك  صلى الله عليه وسلم نے  كسى مسلمان كى طرف اسلحہ  سے محض  اشاره  كرنے بھى سے منع فرمايا، حضرت ابو ہريره سے مروى ہے كہ  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘[صحيح مسلم:2617]

 قرآن وحدیث کی ان واضح تعلیمات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے كہ اسلحہ سے لوگوں  كو قتل كرنا  تو بہت بڑا اقدام ہے، اسلام نےناحق معصوم جان قتل كو ملعون ومردود قرار ديا ہے، اسلام نہ صرف مسلمانوں بلكہ بلا تفريق رنگ ونسل تمام انسانوں  كے  قتل  كى سختى ممانعت كرتا ہے، اسلام ميں كسى انسانى  جان كى قدر وقيمت اور حرمت كا اندازه يہاں سے لگايا جا سكتا ہےكہ اسلام كسى  بهى انسان كوبلا وجہ  قتل كرنے كى  نہ صرف سخت ممانعت  كرتا ہے  بلكہ وه تو اس كو  سارى انسانيت  كا قتل تصور  كرتا ہے۔

 سال 2023ء   ميں پاكستان  كو دہشتگردى كے نتيجہ ميں ہونے والے كئى واقعات  كا سامنا كرنا   پڑا  ، مرصد الازہركے مطابق 2023 ميں  صرف جنورى  كے  دوران    پاكستان  ميں(35) دہشت گرد حملے ہوئے،(ٹى ٹى   پى) تحريك طالبان پاكستان، اور  بلوچ عسکریت پسند تنظیم جيسى كالعدم دہشت  گرد تنظيموں نے ان  دہشت گرد حملوں كى ذمہ دارى قبول كى،ان دہشت گرد  حملوں ميں سيكيورٹى فورسز كے  كم از كم  (164) اہلكاروں كى شہادت  ہوئى ، جبكہ   ان حملوں  كے  نتيجے ميں   زخميوں كى   كل  تعداد تقريباً(240) رہى، جن ميں   عام شہريوں  اور سيكورٹى  اہلكار بھى شامل ہيں۔

افسوس يہ ہے كہ يہ تنظيميں ان وحشى افعال كو جہاد فى سبيل الله كا نام ديتى ہيں  ليكن   اسلام ميں جہاد كا مطلب معصوم لوگوں  كو قتل  كرنا يا  ان كے سامنے اسلحہ  اٹھانا  نہيں ہے. حضرت امام اكبر شيخ الازہر ڈاكٹر احمد الطيب  نے  اسلام ميں جہاد كا صحيح مفہموم  بيان  كرتے ہوئے كہا:" اسلام میں جہاد ، قتل وقتال اور کشت وخون پر منحصر نہیں ہے جو کہ دشمنی کا رد ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلام میں جہاد اکبر نفس، شیطان اور شر اور برائی کے احساسات اور جذبات سے جہاد کرنا ہے اور جہاد کے شرعی مفہوم میں ہر وہ جدوجہد اور کوشش وکاوش داخل ہے جو لوگوں کے مفاد میں کئے گئے ہوں، ان میں سر فہرست وہ کوششیں ہیں جو فقر وفاقہ کو دور کرنے، جہالت کو ختم کرنے،  بیماری کے علاج، محتاج کی مدد، فقراء اور مساکین کی خدمت اور ان کے تعاون کے لئے کی گئیں ہوں، اسلام نے مسلمانوں کو ہمت افزائی کے ساتھ مسلح جہاد کرنے کا حکم صرف اور صرف ظلم وذیادتی اور دشمنوں کی طرف سے کئے جانے والے یلغار اور یورش کے دفاع کی شکل میں دیا ہے، اس صورت میں دفاع کے لئے قتل وقتال واجب ہو جاتا ہے،اور اس قسم کے جہاد کو تمام مذاہب وادیان اور تہذیبوں  نے جائز قراردیا ہے... بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے كہ  آج اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے کے لئے قرآن اور حدیث کے نصوص کے غلط فہم اور سمجھ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔"

ايسے  دہشت گرد گروہ  جو   اسلام  كے نام  سے قتل وغارت  كرتے ہيں ، اور  اپنے  جرم  مذہب كےنام سے كرتے ہيں  اور اس كو  اپنے وحشى اور غير  انسانى افعال  سے منسوب كرتے ہيں، وه   سب  اسلام كى نمائندگى نہيں كرتے، اور  اسلام سے ان كا  كوئى تعلق نہيں، اسلام    دہشت گردى كے ان وحشى افعال كى بالكل  تاييد نہيں كرتا، اور باقى تمام آسمانى مذاہب  بهى دہشت  گردى كے ان جرائم   كو رد  كرتے ہيں۔

دہشت گردى كى اس آفت  كو ختم كرنے كےلئے  واحدحل يہ ہے كہ   ہم  سب    مسلمان او  رغير مسلمان     دہشت   گردى  كى تمام شكلوں (قسميں) كا سامنا  كريں ،   اس آفت  كو     نيست ونابود   كرنےكے لئے متحد ہوں، اپنے درميان امن وسلامتى قائم كريں، اور   اسلام  كى تعليمات   كى پيروى  كريں  جس كا نام  ہى "سلام "سے مشتق ہے۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
2.0

Please login or register to post comments.