دہشت گردی كا دين سے تعلق !

(حصہ اول)

  • | بدھ, 10 مئی, 2023
دہشت گردی   كا دين سے تعلق !

     كسى نے كہا ہے كہ "تمام مسلمان دہشتگرد نہيں ہيں البتہ تمام دہشتگرد مسلمان ہيں" اس جملہ پر بہت سے لوگوںكا اعتبار ہے حالانكہ   جب ہم عالمى تناظر ميں دہشت گردى كے مسئلے پر غور وفكر كریں تو ايك بات بہت واضح طور پر سامنے آتى ہے کہ اس وقت جہاں بهى دہشت گردى کے خلاف جنگ ہو رہی ہے اس كا نشانہ صرف مسلمان بنائے جا رہے ہیں، يعنى كہ دہشتگردى اسلام سے جنى ہے ادر دہشتگرد مسلمان ہيں اور اوپر سے اس كا نشانہ بهى مسلمان ہى بن رہے ہيں!! كيا يہ بات ذرا عجيب نہيں ہے؟؟

اسلام ايسا آفاقى مذہب ہے جس كى بنياد  ہی امن وسلامتى اور محبت پر قائم ہے، اور جس مذہب كى بنياد ہی سلامتى ہو اور جس مذہب نے قيام امن كيلئے تمام انسانيت كيلئے ايسے سنہری اصول وضع كئے جن پر عمل كر كے یہ خطہ ء عالم امن كا گہوارہ بن سكتا ہے، اس پر دہشت گردى كا الزام لگانا يا دہشت گردى  كيلئے اس مذہب كا استعمال كرنا دونوں صورتيں مذموم  اور ناقابل قبول ہیں۔

اسلام نے كسى بے گناه كا خون بہانے  سےسختى سے منع كيا، اور اس ميں مسلمان اور كافر كوئى قيد نہیں كى گئى، ظلم وزيادتى ہر حال ميں منع كر دى گئى ہے حتى كہ ‏آپ حالت جنگ میں بهى كسى سے زيادتى نہیں كر سكتے۔ اسلام كے پانچ بنيادى اركان تو متفق عليہ  ہیں ليكن قرآن ميں جہاد كو ديگر اركان اسلام ہی كى طرح اہميت دى گئى  ہے، تا ہم موجوده دور کے حالات اس كى مزيد تصريح  يا وضاحت كا تقاضا كرتے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت ہوا  ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے اور کچھ نادان مسلمان افراد یا گروہ فتنہ و فساد پھیلا رہے ہیں تو یہ لوگ مذہبی نہیں ہیں، کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو اوراسلام کی روح سے بھی واقف ہو، پھر فتنہ و فساد یا ظلم و تشدد کرے یا اس کو پهيلانے ميں مددگار ثابت ہو۔ اسلئے  ضروری ہے کہ لوگوں کو جہاد سے متعلق اسلامی احکامات و تصورات کی اصل روح سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس ضمن میں غور و خوض کریں اور جہاد اور دہشت گردی کے ما بين  فرق کو سمجھ سکیں۔خاص طور پر  11 ستمبر   2001کے بعد ''اسلامی دہشت گردی'' جیسی اصطلاحات سامنے آئیں۔ 11 ستمبر وہ دن ہے، جس نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ امریکا میں دہشت گردی کے حملوں کے بعد نسلی تعصب معمول بن گیا، خاص طور پر امریکا اور يورپ کی مسلمان آبادی کو اپنے مذہب اورحب الوطنی کا جواز اُس ملک کو پیش کرنا پڑا جسے وہ اپنا گھر سمجھتے تھے۔

اسلام میں جہاد کا تصور اور مفہوم بہت وسیع ہے اسلئے جنگ یا قتال (لڑائی) کو جہاد کا جزو تو کہا جا سکتا ہے لیکن صرف جنگ یا قتال پر ہی جہاد کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ۔ جبکہ ہر وہ عمل جو اسلام کے تصور جہاد اور آداب القتال کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو وہ دہشت گردی کہلائے گا چاہے وہ انفرادی ياگروہی سطح پر ہو۔ اور اس وقت دنيا كے تمام تصادم علاقوں  ميں  ان تينوں اصطلاحات {جہاد، جنگ اور دہشت گردى} كا بكثرت استعمال كيا جا رہا ہے، اگرچہ تينوں اصطلاحات كئى اعتبار سے ايك دوسرے سے جدا جدا ہیں۔ ليكن ديكها يہ گيا ہے کہ متصادم فريقين كےدرميان ان اصطلاحات كے استعمال ميں حد درجہ اختلاف پايا جاتا ہے ۔ اگر ايك فريق اپنی لڑائى كو جہاد سمجهتا ہے تو دوسرا فريق اسے دہشت گردى قرار ديتا ہے۔ اسى طرح ايك فريق اپنى جنگ كو دہشت گردى کے خلاف كارروائى كے طور پر درست قرار ديتا ہے تو دوسرا فريق اس كارروائى كو ہی دہشت گردى قرار ديتا ہےاسى اختلاف كى بناء پر عام لوگوں كو يہ سمجهنے میں دشوارى پيش آ رہی ہے کہ ان ميں سے كون سا  فريق حق پر ہے اور كون سا  باطل پر۔ اس لئے ضرورى ہے کہ عالم اسلام كے تمام مكاتب فكر كے علماء اكٹھے ہو كر دورِ نو كے تقاضوں کے مطابق جہاد کے فلسفہ، اس كى اہميت اور ضرورت پر متفقہ رائے قائم كرتے ہوئے  اسےدہشت گردى سے منسوب  ہونے سے روكنے كيلئے جہاد اور  دہشت گردى كے درميان فرق واضح كريں۔ موجوده صورتحال يہ ہے کہ ملت اسلاميہ فرقہ واريت اور انتشار كا شكار ہے اور ان كا ايك موقف پر جمع ہونا محال دكهائى ديتا ہے حتى كہ جہاد جيسے  متفقہ حكم پر بهى عالم اسلام كے خواص وعوام دو حصوں میں تقسيم ہو چکے ہیں۔ ايك تو وه لوگ ہیں جو بڑی شدت كے ساتھ جہاد سے متعلق خود ساختہ عقائد اور نظريات پر كاربند ہیں، جبكہ دوسرا طبقہ معتدل رائے ركهنے  والوں پر مشتمل ہے۔ اور اپنے موقف ميں شدت ركهنے والا طبقہ كفار كے ساتھ ہميشہ كيلئے جنگ كرنے کے حكم کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد ونظريات سے متصادم مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے كو جہاد سے تعبير كرتا ہےاور اس کیلئے وه ان آيات واحاديث سے استدلال كرتے ہیں جن ميں مطلقا جہاد كا حكم ہے، جبكہ معتدل فكر كا حامل طبقہ جہاد كو صرف دفاعى نقطہ نظر سے اہميت ديتا ہے۔ ہر حال میں جہاد، جنگ يا   دہشت گردى ميں  یہی بنيادى اصول وجہ تفريق ہیں کہ جہاد اور اس کی مختلف اقسام كا مقصد دنيا ميں  امن وسلامتى  ہے جبكہ جنگ اور دہشت گردى كا  صرف تباہی  ہے، مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ دہشت گردی ایک چیز ہے اور جہاد اس سے قعى طور پر مختلف،  اس لیئے ہم آنے والے مضامین میں جہاد کی شرعى تعریف، اس كى اقسام اور اس كى شرائط   پر بات کریں گے۔

Print
Categories: اہم خبريں
Tags:
Rate this article:
1.0

Please login or register to post comments.