اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو نہ صرف عبادات اور اخلاقی تعلیمات پر زور دیتا ہے بلکہ اس میں انسانیت کے لیے محبت، امن، اور بھائی چارے کی اہمیت بھی واضح کی گئی ہے۔ قرآن و سنت میں مسلمانوں کو مختلف اقلیتوں اور غیر مسلمانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ حدود اور اصول بھی (رکھے)وضع کیے گئے ہیں جن کی پابندی کرنا ضروری ہے۔
غیر مسلمانوں کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینے کا معاملہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف فقہی آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ علماء اس عمل(معاملے) کو غیر اسلامی سمجھتے ہوئے اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ کچھ علماء اس بات کو جائز اور انسانیت کے تقاضوں کے مطابق سمجھتے ہیں۔
نئے سال کا دن، جسے گریگورین کیلنڈر میں یکم جنوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں عام طور پر "نیا سال" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر عیسوی سال کے اختتام پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نئے سال کو منانے اور اپنے مسیحی ساتھیوں کو کرسمس کی مبارکباد دینے کے جواز کے بارے میں تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس موضوع کو جامع انداز میں سمجھنے کے لیے ہم درج ذیل نکات کا جائزہ لیتے ہیں:
نئے سال کا جشن منانے کی دو جہتیں ہیں:
عیسوی سال کے اختتام پر جشن منانا بنیادی طور پر ایک سماجی اور قومی تقریب ہے، اور کچھ لوگوں کے لیے یہ مذہبی پہلو بھی لے سکتا ہے۔
پہلا... ایک مذہبی پہلو: اللہ تعالی کی نعمتوں پر غور کرنا اور زندگی کے تسلسل اور دنوں کی تجدید کے لیے اس کے فضل وکرم کو محسوس کرنا۔ اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کا موقع ہے۔
دوسرا ... سماجی اور قومی پہلو: نئے سال کا جشن منانا بنیادی طور پر ایک سماجی اور قومی تقریب ہے۔ جس کا مقصد معاشرے کے ارکان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانا اور خصوصا مذہبی تنوع والے ممالک میں قومی اتحاد کی توثیق کرنا ہے۔ یہ جشن مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان بقائے باہمی کی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی تقریب ہے جو قوم کے تمام شراکت داروں کو اکٹھا کرتا ہے۔
اسلام نے اہل کتاب کی تعطیلات کی منظوری دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر قوم کے لئے ایک عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔"[3931صحیحبخاری، و2061 صحیح مسلم]
مبارکبادی قومی یکجہتی کے جذبے کو بڑھاتی ہے، اور اسلام کی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہے جو بقائے باہمی کا مطالبہ کرتی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور مشترکہ اقدار
➢ اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو ایک عظیم الہی معجزہ مانا ہے۔ حضرت عیسی کی زبانی قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " "اور مجھ پر سلام ہے جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا"۔ (مریم: 33)
➢ قرآن کریم نے سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی تفصیلات کے لیے ایک بڑی جگہ مختص کی ہے۔
➢ اس موقع پر مبارکباد مسلمانوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت کے احترام اور ان کی انسانی اور مذہبی قدر کے جشن کی عکاسی کرتی ہے۔
غیر مسلمانوں کو ان کی تعطیلات پر مبارکباد دینے پر اسلامی مذہبی رہنماؤں وعلما کے موقف۔
➢ اسلامی مذہبی رہنماؤں جیسے کہ شیخ الازہر نے ہمیشہ عیسائیوں کو ان کی تعطیلات پر مبارکباد دے کر بقائے باہمی کو فروغ دینے کی ایک شاندارمثال پیش کی ہے۔
➢ اسلام مرد کو اہلِ کتاب سے شادی کی اجازت دیتا ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان مبارکبادوں کا تبادلہ اور تعلقات کا ہونا ایک فطری بات ہے۔
تاریخی تبدیلیاں اور سماجی جہتیں۔
موجوده زمانے كى صورت حال كےمطابق فتاوى کی تجدید ہوئى اور تاريخى تبديليوں اور سماجی معاملات کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔
مبارکباد کو مسترد کرنے والے قدیم فتوے، مذہبی اور تاریخی تنازعات کے ادوار سے منسلک تھے۔ اور آج کل حالات بدل چکے ہیں،اور مسلمانوں اور عسائيوں كے مابين تعلقات ہم آہنگی اور تفہيم و افہام پر مبنى ہيں،ارشاد بارى تعالى ہے:" اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔[سوره الحجرات:13]
اسلام غير مسلمانوں كے ساتھ عدل وانصاف كى دعوت ديتا ہے،ارشاد بارى ہے:" جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ [سوره الممتحنه:8]
اچھی ہمسائیگی اور احسان کی اقدار
اسلام تمام لوگوں سے (اچھا برتاؤ) حسن كا سلوك كرنے كا حكم ديتا ہے،ارشادى بارى تعالى ہے: "اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا"{سوره البقره:83]
آج سالگرہ (کرسمس) کی مبارکباد نیکی اور (حسن جوار )اچھی ہمسائیگی کی علامت بن گئی ہے۔
مصر كے معتبر مذہبى ادراوں جيسے الازہر اور مصری دار الافتا نے شہريت اور بقائے باہمى كے دائرے ميں عیسائیوں کو ان کے مذہبی تہواروں اور کرسمس کے موقعے پر مبارک باد دینے كى اجازت كى تاكيد كى ہے۔
نفرت انگیز کی تقریر اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا
انتہا پسند گروہيں ان معتدل اسلامى تعليمات كو نظر انداز کرتى ہيں جو تمام لوگوں كے درميان ہمدردی اور امن كى دعوت ديتى ہيں، اور مبارك باد دينے كو حرام كرنے كے ذريعہ جھگڑے اور نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہى ہیں۔
اس نفرت انگيز تقرير کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کے روادار پیغام کو واضح کرنے کی ضرورت ہے جو انصاف، احسان اور مساوات پر زور دیتا ہے۔
دين اسلامى كى تعليمات كے مطابق عیسائیوں کو ان كے مذہبى تہواروں كےموقعے پر مبارک باد دینا جائز ہے۔اور يہ باہمی احترام کا اظہار اور اسلام كى انسانى اقدار كى عكاسى كرتا ہے۔
سالِ نو كا جشن منانا اور غیر مسلموں کو مبارکباد دینا اسلامی عقیدے سے متصادم نہیں ہے، جب تک کہ اس میں شریعت کے خلاف کوئی عمل شامل نہ ہو۔
اس تناظر میں، الازہر آبزرویٹری ایک قوم کے لوگوں کے درمیان بقائے باہمی اور محبت کی اقدار کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ہم دنیا بھر کے مسیحی بھائیوں کو کرسمس کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا سے دعا کرتے ہیں کہ نیا سال تمام لوگوں کے درمیان امن اور افہام و تفہیم سے بھرپور سال ہو۔