خواتین کے لیے ماہِ رمضان: برکت یا اضافی مشقت؟

  • | پير, 17 مارچ, 2025
خواتین کے لیے ماہِ رمضان: برکت یا اضافی مشقت؟

رمضان المبارک کا مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دنیا بھر کے مسلمان عبادات میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مہینے میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور دلوں میں روحانی سکون پیدا ہوتا ہے۔ روزہ، تراویح، تلاوتِ قرآن اور دعا کی محفلیں ہر گھر اور مسجد میں آباد ہو جاتی ہیں، اور ایک خاص روحانی ماحول بن جاتا ہے جو عام دنوں میں کم نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں" [البقرة: 185]

لیکن خواتین کے لیے بهى یہ مہینہ جہاں رحمتوں کا ذریعہ ہوتا ہے، وہیں ایک اضافی ذمہ داری اور مشقت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ روزے رکھنا، سحرى و افطار ى کی تیاری، عبادات میں شرکت اور دیگر خاندانی امور کی دیکھ بھال بعض اوقات خواتین کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رمضان المبارک خواتین کے لیے برکت کا مہینہ ہے یا اضافی مشقت کا؟

عام طور پر ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں خواتین کو گھر کے تمام امور سنبھالنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے، اور یہ ذمہ داری رمضان کے دوران مزید بڑھ جاتی ہے۔ سحرى و افطار ى کی تیاری، کھانے کے انتظامات، اور گھر کے دیگر افراد کی ضروریات کا خیال رکھنا ان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ خواتین کے لیے یہ ایک دوہری آزمائش بن جاتی ہے، کیونکہ انہیں اپنی عبادات کو بھی مکمل کرنا ہوتا ہے جبکہ کھانے پینے اور گھریلو کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں"۔  یہ بات سیرتِ نبوی سے بھی ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ گھر کے کاموں میں اپنے اہلِ خانہ کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "رسول اللہ ﷺ اپنا جوتا مرمت کرتے تھے ، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں تمہاری طرح ہی کام کرتے تھے"۔

اس کے علاوہ، مہمانوں کی آمد و رفت، اجتماعی افطاریوں کی تیاری، اور اہلِ خانہ کی پسند کے مطابق کھانے بنانے کا دباؤ خواتین کو مزید تھکا دیتا ہے۔ ان تمام مصروفیات کے درمیان، اکثر خواتین اپنی صحت اور آرام کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی تھکن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی توانائی کو متوازن طریقے سے استعمال کریں اور خاندان کے دیگر افراد بھی ان کے ساتھ تعاون کریں تاکہ رمضان حقیقی معنوں میں برکت اور سکون کا ذریعہ بن سکے۔

ان خواتین کے لیے رمضان مزید مشکل ہو جاتا ہے جو ملازمت پیشہ ہیں۔ دن بھر دفتر کی ذمہ داریاں پوری کرنا، کام کی سختی کے باوجود روزے کا اہتمام کرنا، اور پھر گھر آ کر سحرى و افطار ى کی تیاری میں مصروف ہو جانا ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ اکثر خواتین کو کام کے بعد بھی دفتر کے امور مکمل کرنے پڑتے ہیں، جس سے ان کے آرام اور عبادات کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں خواتین کے لیے وقت کی بہتر منصوبہ بندی نہایت ضروری ہو جاتی ہے تاکہ وہ اپنی روحانی اور دنیوی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔ اس کے لیے انہیں اپنی روزمرہ کی روٹین میں توازن پیدا کرنا ہوگا، جیسے کہ وقت سے پہلے سحرى و افطارى کی تیاری، گھریلو کاموں کی تقسیم، اور عبادات کے لیے مخصوص وقت مقرر کرنا۔ مزید برآں، اگر کام کی جگہ پر ایک معاون اور ہم آہنگ ماحول فراہم کیا جائے، تو ملازمت پیشہ خواتین کے لیے رمضان کے دوران اپنی ذمہ داریوں کو متوازن کرنا آسان ہو سکتا ہے۔

اگرچہ خواتین کو رمضان میں اضافی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ ان کے لیے بے پناہ برکات، لامحدود رحمت اور نجات لاتا ہے۔ رمضان کی عبادات، خاص طور پر تلاوتِ قرآن، تراویح اور دعا، خواتین کو ایک روحانی سکون اور قلبی اطمینان عطا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر و استقلال کے خوگر ہوں ۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے ( کہلانے کے مستحق ) ہیں ، اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں" [البقرة: 177]

رمضان میں صبر اور قربانی کی جو تربیت ملتی ہے، وہ نہ صرف ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے بلکہ ان کے خاندانی اور سماجی تعلقات کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ روزے کی حالت میں کام کرنے، دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنے، اور اللہ کے قریب ہونے کی کوشش خواتین کے لیے ایک مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر خواتین رمضان کو صرف جسمانی مشقت کے پہلو سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک روحانی ترقی کا موقع سمجھیں، تو وہ اس مہینے کی برکات کو زیادہ بہتر انداز میں محسوس کر سکتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے"۔ 

اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ رمضان میں گھر کے تمام افراد خواتین کے ساتھ تعاون کریں۔ سحرى و افطارى کی تیاری میں مرد حضرات اور بچے بھی حصہ لیں تاکہ خواتین پر کام کا دباؤ کم ہو۔ اس کے علاوہ، وقت کی بہتر منصوبہ بندی اور سادہ کھانوں کو ترجیح دینے سے بھی مشقت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خاندان کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ رمضان کے دوران خواتین کی محنت کو سراہیں اور ان کی مدد کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔“

مزید برآں، سماجی رویوں میں تبدیلی لا کر یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ خواتین پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالا جائے، تاکہ وہ بھی رمضان کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور اسے ایک مثبت اور خوشگوار تجربہ بنا سکیں۔ اس مقدس مہینے میں ہمیں خواتین کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی اس مہینے کی روحانی برکات سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔ رمضان کو صرف ایک اضافی مشقت بنانے کے بجائے، اسے حقیقی معنوں میں رحمت اور برکت کا ذریعہ بنانے کے لیے ہمیں اپنی سوچ اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

Print
Tags:
Rate this article:
2.0

Please login or register to post comments.