نفس پر قابو پانے کی جدوجہد!

  • | پير, 19 مئی, 2025
نفس پر قابو پانے کی جدوجہد!

 

    بعض اوقات انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہر راستہ اس کو ایک مختلف مقام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ بعض اوقات آپ کے اندر یہ آواز بلند ہوگی: وہی کرو جو تمہیں پسند ہو، جس میں تمہاری خوشی اور سکون ہو، اور جو تمہیں پریشانی یا تکلیف دے، اُس سے دور رہو۔
اس راستے پر چلتے ہوئے آپ کو آہستہ آہستہ یہ اندازہ ہونے لگے گا کہ ان میں بعض چیزیں آپ کے لیے خوشی کا باعث تو ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ حرام ہیں، اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہوں گی، جو آپ کو سراسر ناپسند ہوں لیکن اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت فرض کی ہے۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور کیوں میں وہ نہیں کر سکتا جو مجھے پسند ہو اور جس میں میری خوشی ہو، چاہے وہ حرام کیوں نہ ہو؟ انسان ایک ہی دفعہ تو جیتا ہے!
در حقیقت، اگر ہمیں ہر چیز کرنے کی اجازت ہو، تو یقیناً زندگی مکمل طور پر بے ترتیبی میں ڈوب جائے گی۔ آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی شخص کو آپ کی کوئی چیز پسند آ جائے، جیسے آپ کا گھر یا گاڑی، اور وہ اسے حاصل کرنے کی خواہش کرے، تو کیا اس کو حاصل کرنا اس کا حق بن جائے گا؟ بالکل نہیں۔ کوئی صاحبِ عقل شخص ایسی بات نہیں کہہ سکتا، اسی لیے حقوق العباد اور حقوق اللہ کی حفاظت کی غرض سے اسلامی شریعت نے بعض قوانین مقرر کیے ہیں۔

نیز آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ: "مجھے منشیات یا شراب پینا پسند ہے، تو میں اُسے استعمال کروں گا، اور جب دل کرے تو اس کو چھوڑ دوں گا!" نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے "میں فلان گروہ کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہوں کیونکہ ان کے بعض افکار و خیالات مجھے فی الحال بہت پسند آ رہے ہیں" اور بغیر کسی جانچ پڑتال کے آپ ان کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ ایسا سوچنا درست نہیں۔

 

ہر چیز کو صرف محبت اور نفرت کی بنیاد پر دیکھنا ایک غلط تصور ہے، کیونکہ جو چیز تمہیں پسند آتی ہے، وہ کسی دوسرے کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی خواہشات میری خواہشات کے بالکل برعکس ہوں۔
دراصل شریعت کے احکام کے پیچھے کچھ اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں، جنہیں علماء کرام نے "مقاصدِ شریعت" کا نام دیا ہے۔ یہ پانچ بنیادی مقاصد ہیں:
1- جان کی حفاظت
2- عقل کی حفاظت
3- دین کی حفاظت
4- مال کی حفاظت
5- عزت و آبرو کی حفاظت

 

پس ہر وہ چیز جو حلال قرار دی گئی ہے، وہ ضرور ان پانچ میں سے کسی ایک مقصد کو پورا کرتی ہے یا ان کی حفاظت کرتی ہے۔ اور اسی طرح، ہر وہ چیز جو حرام قرار دی گئی ہے، وہ ان میں سے کسی مقصد کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ رہی بات نفس کی خواہشات اور جذبات کی، تو اسلام میں ایک عظیم اصول ہے جسے "مغالَبَۂ نفس" کہا جاتا ہے، یعنی انسان کو اپنی ہر خواہش کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ قرآنِ کریم نے اسی بات کو "تزکیہ" کے نام سے یاد کیا ہے، اور یہی وہ عظیم فریضہ ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو بھیجا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ)
"بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سُناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے" [آل عمران : 164]

 

اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انسان معصوم نہیں ہے، اور یہی حقیقت قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي، إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي، إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ)
"میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے"۔ [یوسف: 53]

 

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔"
یعنی اگر تم سے کوئی لغزش ہو جائے، اور قدم گناہ کے راستے پر پڑ جائے، تو سوال یہ ہے کہ: میں اپنی نفس پر کیسے قابو پاؤں؟ اور اس راستے سے کیسے نکلوں؟ آئیں، اس پر مل کر غور کرتے ہیں، کیونکہ ایسے کئی طریقے ہیں جو گناہوں سے بچنے اور توبہ کی طرف لوٹنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

پہلے یہ سوچیں کہ کسی چیز کو حرام قرار دینے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ مثال کے طور پر: منشیات کو حرام قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ عقل کو بے اثر کر دیتی ہیں، جسم کو سستی اور تھکن میں مبتلا کر دیتی ہیں، اور انسان کو وقتی اور جھوٹی لذت میں مبتلا کر دیتی ہیں — ایک ایسی لذت جو صرف شروع میں محسوس ہوتی ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں، بلکہ منشیات انسان کو ہر طرح کی برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "شراب نہ پیو، کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے"۔

انتہا پسند جماعتوں میں شامل ہونے کی ممانعت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کو پورے معاشرے کو کافر سمجھنے پر اُکساتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے خون، مال اور عزت کو حلال سمجھنے لگتا ہے — حالانکہ یہ سب کچھ اُس دین کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے، جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو کسی مسلمان کو ناحق تکلیف دے، گویا اس نے اللہ کے گھر کو ڈھا دیا"۔ سوچیں! محض ایذا رسانی کتنا بڑا گناہ ہے!

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعض انتہا پسند گروہوں کے لیڈر پہلے منشیات کے تاجر تھے۔ یہ حقیقت انسان کے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ صرف خوبصورت اور ترتیب دی گئی باتیں سن کر کسی راہ پر چل پڑنا دانشمندی نہیں، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ یہ چمکدار نعرے اُسے ایک ایسے تاریک راستے کی طرف لے جائیں، جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہ ہو۔

 

اپنے لیے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کریں، اللہ کے ذکر، استغفار اور جس قدر ممکن ہو، نیک اعمال کے ذریعے اُس کی قربت حاصل کریں۔
ہو سکتا ہے کوئی یہ سوال کرے: اگر کسی نے مجھے زبردستی کسی کام کے کرنے پر مجبور کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟! بعض اوقات کچھ لوگ دوسروں پر الزام ڈال دیتے ہیں کہ: "میرے اردگرد کے حالات ہی ایسے تھے"، "حرام چیزیں ہر طرف تھیں"، "زندگی ہی مشکل تھی"... وغیرہ۔ ایسے میں انسان اُس تاریک حقیقت سے بھاگتا ہے جو اُس نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوتی ہے، اور اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو بھی راستہ اختیار کیا ہے، وہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا۔ قرآنِ کریم نے یہ بات واضح کر دی کہ حالات کبھی بھی انسان کے بگاڑ کا واحد سبب نہیں ہوتے: فرعون کی بیوی مومن تھی، جبکہ نبی نوح علیہ السلام کی بیوی ایمان نہ لائی۔ ان حالات میں ماحول کا کیا کردار تھا؟

 

لہٰذا اپنے دوستوں کی فہرست پر نظرِ ثانی کرو، اور اُن نیک لوگوں کو چنو جو تمہیں خیر اور بھلائی کی طرف لے جائیں، اور بُرے ساتھیوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔ یہ عمل تمہیں تقویت دے گا، اور ایک اچھا ماحول فراہم کرے گا جو تمہیں اللہ کی رضا کے راستے پر گامزن رکھے گا۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا انجام اُس بدبخت کی طرح ہو جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے:
(يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلانًا خَلِيلا)
"ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔" [الفرقان: 28]

 

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:
(بَلِ الْأِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ)
"بلکہ انسان خود اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہوگا، چاہے وہ کتنے بہانے بنائے۔" [القیامہ: 14-15]

 

تو یہ جو ہم "حالات" یا "ماحول" کا بہانہ کرتے ہیں، دراصل سب سے پہلے ہمیں ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہانہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان خود کو پہچانے، اور اپنی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس کی قسم کھا کر فرمایا:
(وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)
"قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی۔ پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا۔"

یعنی اللہ نے نفس کو پیدا کیا، اُسے سنوارا، اور اُسے نیکی و بدی کا شعور عطا کیا۔ یہ انسان پر ہے کہ وہ کس طرف رخ کرتا ہے: اگر وہ اپنی نفس کو پاک رکھے، گناہوں سے بچائے اور اطاعت کی راہ اختیار کرے، تو وہی کامیاب ہے۔ اور جو اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرے، اور اللہ سے دور ہو جائے، تو وہی خسارے میں ہے۔

 

اپنے آپ کا محاسبہ کریں، تاکہ قیامت کے دن آپ کا حساب کتاب آسان ہو۔ ان راستوں پر غور کریں جو آپ نے اختیار کیے ہیں، کیا وہ آپ کے لیے یا آپ کے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہیں، یا وہ تباہی اور فساد کا سبب ہیں؟
خلاصہ یہ ہے کہ سب کو ہماری یہ نصیحت ہے کہ اپنی خواہشات کے پیچھے مت دوڑیں، وقت گزرنے سے پہلے اپنے صحیح راستے پر واپس آ جائیں۔
Print
Tags:
Rate this article:
3.5

Please login or register to post comments.