اسلام ایک ایسا دین ہے جو روحانی پاکیزگی اور اخلاقی بلندی کا علمبردار ہے۔ اس کی تعلیمات کا جوہر انسان کو عاجزی، انکساری اور دوسروں کے لیے خیرخواہی کی راہ پر گامزن کرنے میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تکبر اور غرور کو سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
“جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔”
(صحیح مسلم)
یہ حدیث ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ تکبر محض ایک اخلاقی نقص نہیں بلکہ ایک روحانی بیماری ہے جو انسان کو جنت سے محروم کر سکتی ہے۔
انتہاپسندوں میں تکبر کی جڑیں
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ بعض لوگ اپنے ایمان، عبادات یا دینی وابستگی کے باعث خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف عام افراد بلکہ انتہا پسند گروہوں کے پیروکاروں میں بھی پایا جاتا ہے، جو خود کو “خالص ترین” مسلمان اور دین کے محافظ تصور کرتے ہیں۔ ان کا تکبر اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین، اساتذہ بلکہ اپنے ہی اہل و عیال کو بھی کافر قرار دے کر جان سے مار دینے تک کو جائز سمجھتے ہیں۔
یہی تکبر انہیں اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ آیت:
“وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ”
(سورہ آل عمران: 139)
کی غلط تفسیر کرکے خود کو “غالب” اور دوسروں کو “مغلوب” تصور کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا سیاق و سباق غزوۂ اُحد کے پس منظر میں ہے، اور اس کا اصل مفہوم جنگی شکست کے بعد مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے، نہ کہ دوسروں پر فخر جتانے کا جواز۔
انکساری کا نبوی ماڈل
قرآن و سنت کا مطالعہ واضح طور پر یہ سکھاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ، جو تمام انسانوں میں سب سے افضل اور متقی تھے، انتہائی عاجزی اور شفقت کے ساتھ حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی پیش آتے تھے۔ فرعون جیسے جابر کے لیے بھی اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا:
“فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا”
(سورہ طہٰ: 44)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ اسلامی قیادت کا معیار تکبر نہیں بلکہ انکساری ہے۔ جب وہ سادہ لباس اور اپنی سواری کی لگام تھامے شام کی سرزمین میں داخل ہوئے تو فرمایا:
“ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت دی ہے۔”
تکبر کی فکری و اخلاقی تحلیل
تین اہم نکات جو ہر مسلمان کو سمجھنے چاہییں:
1. تمام انسان برابر ہیں:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے”
(ابو داؤد)
یہ تعلیم ہمیں انسانی مساوات اور انکساری کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
2. انسان خطاکار ہے:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف خوبیوں، خامیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کامل صرف انبیاء ہیں، اور باقی سب خطا کے امکان سے خالی نہیں۔
3. ایمان اور نیکی اللہ کا فضل ہیں:
جو ایمان یا نیکی ہمیں حاصل ہوئی، وہ اللہ کی عطا ہے نہ کہ ہمارا کمال۔ اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو انسان اپنی عبادت پر فخر کرنے کے بجائے شکر گزار بن جائے۔
حضرت ابن عطاء اللہ سکندری فرماتے ہیں:
“نیکی سے اس لیے خوش نہ ہو کہ وہ تجھ سے ظاہر ہوئی، بلکہ اس لیے خوش ہو کہ وہ اللہ کی طرف سے تجھے عطا ہوئی۔”
انتہاپسندانہ سوچ کی نفسیاتی جڑیں
امام غزالیؒ نے “احیاء علوم الدین” میں نہایت باریکی سے اس بات کی نشاندہی کی کہ شیطان کس طرح انسان کے دل میں تکبر داخل کرتا ہے اور اسے یہ گمان دیتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے، حالانکہ وہ درحقیقت شیطانی دھوکے میں ہوتا ہے۔ یہی فکری زہر انتہاپسندوں میں بدگمانی، بدخلقی اور معاشرے سے نفرت کو جنم دیتا ہے۔
تکبر کا علاج: نفس کا محاسبہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا”
(القصص: 83)
آخرت کا انعام صرف اُن کے لیے ہے جو دنیا میں بڑائی اور فساد نہیں چاہتے۔
امام شاطبیؒ کا قول بھی یاد رکھنے کے لائق ہے:
“انسان کو سب سے زیادہ اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہیے، کیونکہ وہی اصل میں سب سے زیادہ اصلاح کا محتاج ہے۔”
نتیجہ: حقیقی تقویٰ کا تقاضا
اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ تقویٰ کا مطلب صرف عبادت کرنا نہیں، بلکہ عبادت سے اخلاقی تربیت حاصل کرنا ہے۔ اگر کوئی عبادت ہمیں عاجزی، انکساری اور دوسروں سے حسنِ ظن کی طرف نہیں لے جاتی، تو وہ عبادت صرف رسمی اعمال رہ جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل، اور اولیائے کرام کی نصیحتیں ہمیں یہی پیغام دیتی ہیں کہ:
“ایمان، اگر تکبر کے ساتھ ہے، تو وہ روح سے خالی ہے؛ اور اگر عاجزی کے ساتھ ہے، تو وہ روشنی ہے جو دل سے دنیا تک پہنچتی ہے۔”