اللہ نے زلزلے اور آتش فشاں جیسے قدرتی آفات کیوں پیدا کیے ہیں؟
یہ سوال دو پہلو رکھتا ہے:
1. اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرتی آفات کیوں پیدا کیں جو انسان کی زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں؟
2. کیا یہ آفات اور مہلک بیماریاں خدا کے وجود کی نفی کرتی ہیں یا یہ سب کچھ اس کی مشیّت کے خلاف ہو رہا ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ زلزلے، آتش فشاں، سرطان اور دیگر مہلک بیماریاں دراصل اکثر انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔
جب انسان نے ٹیکنالوجی کی ترقی کے زعم میں قدرتی نظام میں مداخلت شروع کی تو اس نے پودوں اور جانوروں کی فطری نشوونما کو متاثر کیا، جو انسان کی غذا کا بنیادی ذریعہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کمزور نسل پیدا ہوئی، اور آنے والی نسلیں بھی بتدریج کمزور ہوتی گئیں۔
مثال کے طور پر:
سرطان ایک ایسا مرض ہے جو خلیاتی نظام میں خلل اور فطری حرکت سے انحراف کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
انسان کی فطرت درج ذیل چیزوں سے متاثر ہوتی ہے:
• آلودہ پانی سے
• مصنوعی ہارمونز والے جانوروں سے
• جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پودوں سے
کیا قدرتی نظام میں مداخلت اور اس میں موجود توازن کو بگاڑنا وہی “فساد” نہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے خبردار فرمایا؟
“ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ”
“خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں۔”
[الروم: 41]
⸻
1- زلزلے:
یہ زمین کی تہوں میں قدرتی حرکات کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔
دنیا میں روزانہ ہزاروں زلزلے آتے ہیں، جن میں سے اکثر محسوس بھی نہیں ہوتے، جبکہ کچھ زلزلے شدید تباہی اور جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
اصل نقصان زلزلے سے زیادہ انسانی غفلت سے ہوتا ہے:
• غیر محفوظ اور بلند عمارتیں
• تیاری کا فقدان
• زلزلے کے دوران گھبراہٹ، بھاگ دوڑ اور ہلاکتیں
• بحران سے نمٹنے کی تربیت کی کمی
2- آتش فشاں:
یہ زمین کے اندرونی حصے کی گرمی کے اخراج کا قدرتی ذریعہ ہیں۔
مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان ان کے قریبی علاقوں میں رہائش اختیار کرتا ہے، جہاں تعمیراتی پابندی ہونی چاہیے۔
3- سیلاب:
سیلاب ہر علاقے میں یکساں نہیں ہوتے؛
• بعض بتدریج، بارشوں یا برف پگھلنے سے پیش آتے ہیں
• بعض اچانک اور خطرناک ہوتے ہیں۔
انسان کی غفلت سیلاب کو آفت میں بدل دیتی ہے:
• سیلابی میدانوں میں رہائش
• غیر محفوظ تعمیرات
• حفاظتی منصوبہ بندی کی کمی
• زمین کی زرخیزی میں کمی، جس سے بارش جذب نہیں ہوتی
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات اور بیماریاں بظاہر خطرناک ہونے کے باوجود کائنات کی عظمت، خالق کے وجود، اور نظامِ ربانی کی گواہی دیتی ہیں۔
یہ نشانیاں انسان کو سوچنے، سبق لینے، اور اصلاحِ احوال کی دعوت دیتی ہیں۔
“لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ”
“نہ سورج کو یہ زیبا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے، اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔”
[یٰسٓ: 40]
کائنات میں کوئی چیز اتفاقاً نہیں ہوتی۔ ہر چیز کسی وجہ اور محددہ نظام یا سسٹم کے تحت رواں دواں ہے۔
اگر یہ سب کچھ محض حادثہ ہوتا، تو اس قدر ترتیب، توازن اور بقاء ممکن نہ ہوتی۔
خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں کے لیے بھی قدرتی آفات سوچنے کی دعوت ہیں:
• کتنے طاقتور لوگ اچانک موت کا شکار ہو جاتے ہیں؟
• اور کتنے کمزور لوگ معجزاتی طور پر زندہ بچ جاتے ہیں؟
• کتنے بیمار شفا پا لیتے ہیں، اور کتنے تندرست اچانک چل بستے ہیں؟
اللہ تعالیٰ اپنی حکمت، قدرت اور مشیّت کے تحت کائنات کو چلا رہا ہے۔ یہ جقدرتی آفات:
• انسان کے اعمال کا نتیجہ ہو سکتی ہیں
• اللہ کی طرف رجوع کی دعوت بھی ہو سکتی ہیں
• تقدیر اور امتحان کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہیں
انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ عقل سے کام لے، اپنے اعمال پر غور کرے، اور اس دنیا میں اپنے کردار کو بہتر بنائے۔
یہ سب نشانیاں ہیں کہ ایک خدا ہے، جو ہر چیز کا خالق، مدبر اور محافظ ہے۔